دہشت گردی کے خلاف جنگ: جمہوری قدروں کا احترام ضروری: اوباما
صائمہ حیدر
7 دسمبر 2016
امریکی صدر باراک اوباما نے اپنے ایک اہم خطاب میں امریکیوں پر زور دیا ہے کہ وہ دہشت گردی کے خلاف جنگ کے دوران اپنی جمہوری روایات کی پاسداری کریں۔ اوباما جلد ہی فوج کا کنٹرول نو منتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے حوالے کرنے والے ہیں۔
امریکی صدر اوباما نے امریکیوں پر زور دیا ہے کہ وہ دہشت گردی کے خلاف جنگ کے دوران اپنی جمہوری روایات کی پاسداری کریں تصویر: Reuters/K. Lamarque
اشتہار
امریکی ریاست فلوریڈا کے شہر ٹامپا میں منگل چھ دسمبر کو قومی سلامتی کے حوالے سے اپنے الوداعی خطاب میں فوجی دستوں سے مخاطب ہوتے ہوئے صدر اوباما نے امریکی عوام سے تشدد اور عدم مساوات کی مذمّت اور مذہبی آزادی اور شہری حقوق کے احترام کا مطالبہ بھی کیا۔ امریکی صدر نے اس موقع پر مزید کہا،’’ہم وہ قوم ہیں، جس کے بارے میں خوف کے پیرائے میں بات نہیں کی جاتی بلکہ اسے اُمید کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔‘‘
اِس سے قبل صدر اوباما نے عراق و شام اور افغانستان میں امریکی کارروائیوں کی نگرانی کرنے والی امریکی سینٹرل کمانڈ کے ارکان اور امریکی اسپیشل آپریشنز کمانڈ سے ملاقات کی۔
نو منتخب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا نام لیے بغیر صدر اوباما نے دائیں بازو کے اِس عوامیت پسند رہنما کے پیش کردہ بعض متنازعہ خیالات کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ امریکا اپنے ہاں مسلمانوں کے خلاف امتیازی سلوک یا مخصوص گروپوں کے بارے میں زیادہ جانچ پڑتال کو مسلّط نہیں کرتا۔
صدر اوباما نے کہا،’’ہم وہ قوم ہیں، جو آزادی پر یقین رکھتی ہے اور اِسے برقرار رکھنا ہم میں سے ہر ایک کی ذمہ داری ہے۔ یہی وہ چیز ہے، جو ہمیں ظالموں اور دہشت گردوں سے الگ کرتی ہے۔‘‘ آٹھ سال تک صدارت کے عہدے پر فائز رہنے والے امریکی صدر باراک اوباما نے عراق اور افغانستان میں فوجی دستوں میں کمی لانے کے وعدے کا حوالہ بھی دیا۔
ٹرمپ کا کہنا ہے کہ صدر کا عہدہ سنبھالنے کے بعد وہ دہشت گردی کے خلاف کارروائیوں پر اپنی توجہ مرکوز رکھیں گےتصویر: Reuters/C. Allegri
فوجیوں سے اپنے خطاب میں اوباما کا کہنا تھا کہ دہشت گرد تنظیم القاعدہ کے نیٹ ورک کو نا قابلِ تلافی نقصان پہنچایا گیا ہے اور اسامہ بن لادن سمیت اِس کے متعدد اہم رہنما ہلاک ہوئے۔ شام میں خانہ جنگی اور امریکا اور یورپ میں دہشت گردانہ حملوں کی لہر کے باوجود اوباما نے اِس بات پر زور دیا کہ امریکی قیادت میں بین الاقوامی فوجی اتحاد نے ’اسلامک اسٹیٹ‘ کی کمر توڑ دی ہے اور یہ تنظیم اپنے زیرِ تسلط علاقوں سے کنٹرول کھو رہی ہے۔
اوباما کے خطاب کے بعد منگل چھ دسمبر ہی کو سیاست کے میدان میں نو آموز ڈونلڈ ٹڑمپ نے شمالی کیرولینا میں فیئٹ ویل کے مقام پر اپنے حامیوں کی ایک ریلی سے خطاب میں دفاع اور خارجہ پالیسی کے امور پر بات کی۔ ٹرمپ کا کہنا تھا کہ بیس جنوری کو صدر کا عہدہ سنبھالنے کے بعد وہ دہشت گردی کے خلاف کارروائیوں پر اپنی توجہ مرکوز رکھیں گے۔ ٹرمپ نے مزید کہا کہ وہ پرانی دوستیوں کو مستحکم کرتے ہوئے نئے تعلقات بھی بنانا چاہیں گے۔
امریکا میں کتنے مسلمان بستے ہیں؟
امریکا میں ڈونلڈ ٹرمپ کے صدر منتخب ہونے کے بعد سب سے زیادہ تشویش وہاں رہنے والے مسلمانوں میں پائی جاتی ہے۔ وہاں قائم کئی مساجد کو دھمکیاں ملنے کی اطلاعات بھی ملی ہیں۔ آئیے جانتے ہیں کہ امریکا میں کتنے مسلمان رہتے ہیں؟
تصویر: picture-alliance/AP Photo/J. Martin
مسلمان بڑی تعداد میں
پیو ریسرچ سینٹر کا اندازہ ہے کہ امریکا میں رہنے والے مسلمانوں کی تعداد 33 لاکھ کے لگ بھگ ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ امریکا کی 32.2 کروڑ کی آبادی میں مسلمانوں کی حصہ داری تقریبا ایک فیصد بنتی ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/J. Martin
مسلم آبادی میں اضافہ
پیو ریسرچ سینٹر کا یہ اندازہ بھی ہے کہ سن 2050 تک امریکا میں رہنے والے مسلمانوں کی تعداد موجودہ سطح سے دوگنا ہو جائے گی۔
تصویر: picture-alliance/abaca
یہودیوں سے کم ہندوؤں سے زیادہ
ایک محتاط اندازے کے مطابق امریکا میں مقیم مسلمانوں کی تعداد وہاں رہنے والے یہودیوں سے کم ہے، جن کی تعداد میں 57 لاکھ کے قریب ہے۔ وہیں امریکا میں ہندوؤں کی تعداد 21 لاکھ کے لگ بھگ بنتی ہے۔ ان اعدادوشمار کے مطابق امریکا میں مسلمانوں کی آبادی ہندوؤں سے زیادہ ہے۔
تصویر: Getty Images/W. McNamee
یہودی رہ جائیں گے پیچھے
پیو ریسرچ سینٹر نے اندازہ ظاہر کیا ہے کہ سن 2040 میں مسلمان امریکا میں مسیحیوں کے بعد دوسرا سب سے بڑا مذہبی گروپ ہوں گے۔ یعنی امریکا میں آباد مسلم کمیونٹی آبادی کے لحاظ سے 25 سال میں یہودیوں کو پیچھے چھوڑ دیں گے۔
تصویر: dapd
نیو جرسی میں زیادہ مسلمان
امریکا میں مسلمانوں کی آبادی کچھ ریاستوں میں اوسط سے زیادہ ہے۔ مثال کے طور پر نیو جرسی کی طرح کچھ ریاستوں میں بسنے والے مسلمانوں کی تعداد دیگر ریاستوں کے مقابلے میں کہیں زیادہ ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/B. Fox
مسلمان پناہ گزینوں کی آمد
پیو ریسرچ سینٹر کا کہنا ہے کہ امریکا میں سن 2007 کے بعد سے مسلمانوں کی تعداد میں بہت زیادہ اضافہ ہوا ہے۔ اس کی ایک وجہ ملک میں آنے والے پناہ گزین بھی ہیں۔
تصویر: AP
کتنے مسلم پناہ گزین امریکا آئے
مالی سال 2016 میں امریکا میں داخل ہونے والے مسلمان پناہ گزینوں کی تعداد اڑتیس ہزار نو سو ایک رہی جبکہ مجموعی طور پر اس مدت میں امریکی حکومت نے پچاسی ہزار پناہ گزینوں کو قبول کیا۔
تصویر: picture alliance/Photoshot
تبدیلی مذہب
اس کے علاوہ امریکا میں بہت سے لوگ ایسے بھی ہیں، جنہوں نے اسلام بطور مذہب قبول کیا ہے۔ پیو کے مطابق ہر پانچ بالغ امریکی مسلمانوں میں سے ایک ایسا ہے، جس کی پرورش کسی دوسرے مذہب میں ہوئی ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/U. Deck
مسلمان ایک پڑھی لکھی کمیونٹی
امریکی نشریاتی ادارے ’سی این این‘ کی ایک رپورٹ کے مطابق امریکا میں مسلمان کمیونٹی ملک کا دوسرا سب سے زیادہ پڑھا لکھا مذہبی طبقہ ہے۔ اس فہرست میں پہلے نمبر پر یہودی آتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/J. Martin
مسلمان مخالف جذبات
امریکا میں 11 ستمبر سن 2001 کے دہشت گردانہ حملوں کے بعد وہاں مسلمان مخالف جذبات میں اضافہ نوٹ کیا گیا ہے۔
تصویر: AP
ٹرمپ کے بیان
نو منتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنی انتخابی مہم کے دوران کئی بار مسلمان مخالف بیانات دیے۔ اسی مہم کے دوران ری پبلکن سیاستدان نے ایک مرتبہ یہ بھی کہا تھا کہ ’مسلمان امریکا سے نفرت کرتے ہیں‘۔ ٹرمپ نے یہ تجویز بھی کیا کہ مسلمانوں کی عارضی طور پر امریکا میں داخل ہونے پر پابندی لگا دی جانا چاہیے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/J. Locher
اسلام ایک بڑا مذہب
مختلف اعداد و شمار کے مطابق دنیا بھر میں مسلمانوں کی تعداد 1.6 ارب بنتی ہے، یعنی عالمی آبادی کا 23 فیصد حصہ مسلمانوں پر ہی مشتمل ہے۔ مسیحیت کے بعد اسلام دنیا کا دوسرا سب سے بڑا مذہب ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/J. Stratenschulte
اسلام تیزی سے پھیلتا ہوا
پیو ریسرچ سینٹر کا کہنا ہے کہ اسلام اس وقت دنیا کے دیگر مذاہب کے مقابلے میں دنیا کا سب سے تیزی سے فروغ پاتا مذہب ہے۔