1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

دہشت گردی کے خلاف جنگ، خیبر پختونخوا میں غربت اپنے عروج پر

12 اپریل 2012

صوبہ خیبر پختونخوا اور ملحقہ قبائلی علاقوں میں پہلے بھی غربت کی شرح کم نہ تھی تاہم دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کے اتحادی بننے کا فیصلہ اس میں اضافے کا سبب بن گیا ہے۔

تصویر: AP

خیبر پختونخوا میں  بدامنی کی وجہ سے سینکڑوں صنعتوں کی بندش اور کاروبار دیگر شہروں میں منتقل ہونے کے وجہ سے لاکھوں مزدور بے روزگار ہوئے ہیں۔ قبائلی علاقوں میں بے روزگاری اور غربت کی یہ شرح ملک کے دیگر علاقوں کے مقابلے میں اور بھی زیادہ ہے۔ غربت میں اضافے کی وجہ سے خیبر پختونخوا اور قبائلی علاقوں میں آئے روز خودکُشی سمیت دیگر واقعات رونماء ہوتے ہیں تاہم گذشتہ روز مہمند ایجنسی سے نقل مکانی کرکے خیبر پختونخوا کے ضلع چارسدہ کے تحصیل شبقدر میں رہائش اختیار کرنے والے کامران خان نے اسکول یونیفارم نہ ملنے پر خود کو آگ لگا کر خود کشی کر لی۔ چوتھی جماعت کا طالب علم 13سالہ کامران خان کلاس میں نمایاں پوزیشن حاصل کرتا رہا اور یہی وجہ تھی کہ اُس کے اساتذہ اس کا خرچہ برداشت کرنے اور اسے اسکول آنے کے لیے کہتے رہے۔ ڈوئچے ویلے نے اُس کے بھائی سلیم خان سے بات کی تو اس نے بتایا، ’میرے چھوٹے بھائی کامران خان نے چند روز قبل والدہ سے نئی یونیفارم کا مطالبہ کیا جو ہم لوگوں کی بس کی بات نہیں تھی، جس پر کامران خان نے دلبرداشتہ ہوکر خود کو آگ لگا دی۔ ہم اسے ہسپتال لے گئے تاہم 65 فیصد جلنے کی وجہ سے وہ جانبر نہ ہوسکا۔‘‘

اس نے ڈاکٹروں سے بھی شکوہ کیا کہ شہر کے بڑے بڑ ے ڈاکٹروں کے پاس گئے لیکن کسی نے اس کی جان بچانے میں دلچسپی نہیں لی۔ سلیم خان کا کہنا تھا کہ وہ چار بہن بھائی ہیں اور کچھ عرصہ قبل جب اُس کی بہن پیدا ہوئی تو کفالت میں مشکلات کی وجہ سے والدین نے اسے نوشہرہ کے ایک متمول خاندان کے حوالے کیا اس کا کہنا تھا کہ وہ اس بہن سے ملنے کی کوشش نہیں کرتے۔ سلیم خان کا کہنا تھا کہ اس کے والد اعجاز گل بے روزگاری سے تنگ آکر سعودی عرب گئے ہیں لیکن وہاں بھی انہیں ابھی روزگار نہیں ملا۔

مہمند ایجنسی میں گذشتہ پانچ سال سے سیکورٹی فورسز عسکریت پسندوں کے خلاف آپریشن کر رہی ہے۔ اس آپریشن کی وجہ سے جہاں کاروبار تباہ ہوا ہے وہیں لاکھوں کی تعداد میں قبائلی اس علاقے سے نقل مکانی کرچکے ہیں۔ مہمند ایجنسی کے پانچ سو خاندان آج بھی جلوزی مہاجر کیمپ میں رجسٹرڈ ہیں، جنہیں اقوام متحدہ کا ادارہ برائے مہاجرین اور عالمی ادارہ برائے خوراک امداد فراہم کر رہے ہیں۔ اسی طرح دیگر چھ قبائلی ایجنسیوں سے لاکھوں خاندان نقل مکانی کرکے خیبر پختونخوا کے مختلف شہروں اور قریب واقع کیمپوں میں رہائش پذیر ہیں، جن کی کفالت کے لیے بین الااقوامی ادارے امداد فراہم کر رہے ہیں۔ قبائلی علاقے وفاقی حکومت کے زیر انتظام ہیں، جن کے کے لیے نہ تو بحالی کا کوئی اہم منصوبہ سامنے آیا ہے اور نہ ہی ان مہاجر بستیوں میں رہائش پذیر لوگوں کی امداد کے لیے کوئی ٹھوس منصوبہ بندی کی گئی ہے۔ ان کی بحالی اور امداد کے لیے صرف عالمی ادارے متحرک ہیں۔

 قبائلی علاقوں سمیت صوبہ خیبر پختونخوا میں دہشت گردی کے خلاف جنگ، افغان مہاجرین اور نقل مکانی کرنے والوں کی وجہ سے بے روزگاری میں بے پناہ اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ صوبائی حکومت نے بے روزگاری کے خاتمے کے لیے تین ارب روپے کے سرمایے سے بلاسود قرضے فراہم کرنے کی دو اسکیمیں متعارف کی ہیں، جن میں چھوٹے کاروبار اور ہُنر مند افراد کے لیے اجتماعی قرضہ شامل ہے تاکہ بے روزگاری پر قابو پایا جاسکے۔

رپورٹ فرید اللہ خان، پشاور

ادارت عاطف توقیر

ڈی ڈبلیو کی ٹاپ اسٹوری سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی ٹاپ اسٹوری

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں