1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

’دہشت گرد کسی کے دوست نہیں ہوتے‘

28 جون 2019

افغان صدر اشرف غنی کے دورہ پاکستان کے تناظر میں ہونے والے اس سوشل میڈیا مباحثے میں قارئین نے آپس میں کہیں اتفاق کیا تو کہیں اختلاف اور کہیں آپس میں کچھ نوک جھونک بھی ہوئی۔

Bildkombo Aschraf Ghani und Imran Khan
تصویر: Imago Images/Xinhua/D. Balibouse//A. Kamal

پاکستان سے اکثر قارئین نے دونوں ملکوں کے درمیان بد اعتمادی اور الزام تراشی کا ذمہ دار افغانستان کو قرار دیا۔ کئی ایک نے لکھا کہ اس کی ابتداء اسی وقت ہو گئی تھی جب پاکستان کی آزادی کے وقت افغانستان نے پاکستان کو نیا ملک ماننے سے انکار کیا تھا۔

لیکن قیوم اچکزئی سمیت کچھ قارئین نے یہ بھی کہا کہ سارے فساد کی جڑ ڈیورنڈ لائن ہے، جو صدیوں سے آباد پشتون قبائل کو ایک دوسرے سے الگ کرتی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ افغان حکومت انگریز کی کھینچی گئی اس لکیر کو نہیں مانتی جبکہ پاکستان اُسے انٹرنیشنل بارڈر قرار دیتا ہے اور اس پر باڑ لگا رہا ہے۔

پاکستان سے کافی قارئین نے افغانستان کی بھارت کے ساتھ اچھے تعلقات پر بھی سخت تنقید کی۔ امجد محمود نے لکھا کہ افغانستان کی انڈیا سے دوستی اور پاکستان سے دشمنی اصل مسئلہ ہے۔

#ممنوعہ_غیر_منوعہ میں اس موضوع پر بحث پڑھیے اس لنک میں

دیگر قارئین نے بھی اسی طرح کے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ جب جب افغانستان میں جنگیں ہوئی، پاکستان نے افغان پناہ گزینوں کے لیےاپنے دروازے کھول دیے لیکن افغان حکومت نے بھارت کے ساتھ رشتے مضبوط کرنے کو ترجیح دی۔ ان کا موقف تھا کہ افغان پناہ گزینوں کو اپنے ملک واپس بھیج دینا چاہیے۔

لیکن قارئین کی ایک بڑی تعداد نے یہ بھی کہا کہ سب سے بڑا مسئلہ سرحد پار دہشت گردی ہے۔ بعض نے کہا کہ پاکستان میں فوج کے اپنے مفادات ہیں جو دونوں ملکوں کے بیچ بہتری میں رکاوٹ ہیں۔

ایک صارف نے لکھا کہ کوئٹہ اور اس کے مضافاتی علاقوں میں جا کر دیکھ لیں وہاں آج بھی افغان طالبان کس طرح آزادانہ رہتے ہیں اور سرحد پار آتے جاتے رہتے ہیں۔

صارف جاوید اقبال نے لکھا کہ دہشت گرد دہشت گرد ہوتے ہیں کسی کے دوست نہیں۔ لہٰذا اچھے اور برے طالبان اور دہشت گردوں کی کہانیاں اب ختم ہونا چاہییں۔ صارف ملت یار نے مشورہ دیا کہ اگر پاکستان گڈ طالبان ختم کردے تو سب ٹھیک ہوجائے گا۔ 

اسی طرح مرزا گل نے امید ظاہر کی کہ اگر دونوں ملک ایک دوسرے کے اندرونی معاملات میں مداخلت بند کر دیں اور ایک دوسرے کی مدد کریں تو حالات خراب نہیں ہوں گے۔
ڈی ڈبلیو کے ایک اور صارف نے خواہش ظاہر کی کہ اگر پاکستان، انڈیا، افغانستان اور ایران متحدہ ہو کر یہ وعدہ کریں کہ وہ اپنی زمین کسی دہشت گرد تنظیم کو استعمال کرنے نہیں دیں گے، اسی دن امن آجائے گا اور یہ ترقی یافتہ ممالک بن جائیں گے اور عوام کو خوشحال اور پرسکون زندگی نصیب ہوگی۔

دہ پشین خبرئی نے کہا کہ اب وہ وقت آگیا ہے کہ دونوں ممالک اپنے اپنے عوام پر توجہ دیں اور ماضی میں جو ہوا اسے جانے دیں۔ انہوں نے مثال دی کہ امریکا نے جاپان پر ایٹم بم گرایا لیکن بعد میں یہ دونوں ملک دوست اور اتحادی بن گئے۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں
ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں