افغان صدر اشرف غنی کے دورہ پاکستان کے تناظر میں ہونے والے اس سوشل میڈیا مباحثے میں قارئین نے آپس میں کہیں اتفاق کیا تو کہیں اختلاف اور کہیں آپس میں کچھ نوک جھونک بھی ہوئی۔
اشتہار
پاکستان سے اکثر قارئین نے دونوں ملکوں کے درمیان بد اعتمادی اور الزام تراشی کا ذمہ دار افغانستان کو قرار دیا۔ کئی ایک نے لکھا کہ اس کی ابتداء اسی وقت ہو گئی تھی جب پاکستان کی آزادی کے وقت افغانستان نے پاکستان کو نیا ملک ماننے سے انکار کیا تھا۔
لیکن قیوم اچکزئی سمیت کچھ قارئین نے یہ بھی کہا کہ سارے فساد کی جڑ ڈیورنڈ لائن ہے، جو صدیوں سے آباد پشتون قبائل کو ایک دوسرے سے الگ کرتی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ افغان حکومت انگریز کی کھینچی گئی اس لکیر کو نہیں مانتی جبکہ پاکستان اُسے انٹرنیشنل بارڈر قرار دیتا ہے اور اس پر باڑ لگا رہا ہے۔
پاکستان سے کافی قارئین نے افغانستان کی بھارت کے ساتھ اچھے تعلقات پر بھی سخت تنقید کی۔ امجد محمود نے لکھا کہ افغانستان کی انڈیا سے دوستی اور پاکستان سے دشمنی اصل مسئلہ ہے۔
دیگر قارئین نے بھی اسی طرح کے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ جب جب افغانستان میں جنگیں ہوئی، پاکستان نے افغان پناہ گزینوں کے لیےاپنے دروازے کھول دیے لیکن افغان حکومت نے بھارت کے ساتھ رشتے مضبوط کرنے کو ترجیح دی۔ ان کا موقف تھا کہ افغان پناہ گزینوں کو اپنے ملک واپس بھیج دینا چاہیے۔
لیکن قارئین کی ایک بڑی تعداد نے یہ بھی کہا کہ سب سے بڑا مسئلہ سرحد پار دہشت گردی ہے۔ بعض نے کہا کہ پاکستان میں فوج کے اپنے مفادات ہیں جو دونوں ملکوں کے بیچ بہتری میں رکاوٹ ہیں۔
ایک صارف نے لکھا کہ کوئٹہ اور اس کے مضافاتی علاقوں میں جا کر دیکھ لیں وہاں آج بھی افغان طالبان کس طرح آزادانہ رہتے ہیں اور سرحد پار آتے جاتے رہتے ہیں۔
صارف جاوید اقبال نے لکھا کہ دہشت گرد دہشت گرد ہوتے ہیں کسی کے دوست نہیں۔ لہٰذا اچھے اور برے طالبان اور دہشت گردوں کی کہانیاں اب ختم ہونا چاہییں۔ صارف ملت یار نے مشورہ دیا کہ اگر پاکستان گڈ طالبان ختم کردے تو سب ٹھیک ہوجائے گا۔
اسی طرح مرزا گل نے امید ظاہر کی کہ اگر دونوں ملک ایک دوسرے کے اندرونی معاملات میں مداخلت بند کر دیں اور ایک دوسرے کی مدد کریں تو حالات خراب نہیں ہوں گے۔
ڈی ڈبلیو کے ایک اور صارف نے خواہش ظاہر کی کہ اگر پاکستان، انڈیا، افغانستان اور ایران متحدہ ہو کر یہ وعدہ کریں کہ وہ اپنی زمین کسی دہشت گرد تنظیم کو استعمال کرنے نہیں دیں گے، اسی دن امن آجائے گا اور یہ ترقی یافتہ ممالک بن جائیں گے اور عوام کو خوشحال اور پرسکون زندگی نصیب ہوگی۔
دہ پشین خبرئی نے کہا کہ اب وہ وقت آگیا ہے کہ دونوں ممالک اپنے اپنے عوام پر توجہ دیں اور ماضی میں جو ہوا اسے جانے دیں۔ انہوں نے مثال دی کہ امریکا نے جاپان پر ایٹم بم گرایا لیکن بعد میں یہ دونوں ملک دوست اور اتحادی بن گئے۔
2018: دہشت گردی سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والے ممالک
سن 2018 کے ’گلوبل ٹیررازم انڈیکس‘ کے مطابق گزشتہ برس پاکستان میں دہشت گردانہ حملوں میں ہلاکتوں کی تعداد سن 2013 کے مقابلے میں 64 فیصد کم رہی۔ اس انڈیکس کے مطابق دنیا بھر میں سب سے زیادہ دہشت گردی کے شکار ممالک یہ رہے۔
تصویر: STR/AFP/Getty Images
عراق
گلوبل ٹیررازم انڈیکس کے مطابق گزشتہ برس عراق میں دہشت گردی کے واقعات میں 4271 افراد ہلاک ہوئے جب کہ سن 2016 میں یہ تعداد قریب 10 ہزار تھی۔ داعش کی دہشت گردانہ کارروائیوں میں 52 فیصد کمی ہوئی۔ اس کے باوجود عراق دہشت گردی کے شکار ممالک کی فہرست میں گزشتہ مسلسل چودہ برس سے سر فہرست رہا۔ عراق کا جی ٹی آئی اسکور دس سے کم ہو کر 9.75 رہا۔
تصویر: picture-alliance/AP
افغانستان
تازہ رپورٹ کے مطابق افغانستان اس فہرست میں دوسرے نمبر پر ہے تاہم اس برس افغانستان میں دہشت گردی کے سبب ہلاکتوں کی تعداد عراق سے بھی زیادہ رہی۔ گزشتہ برس افغانستان میں قریب بارہ سو دہشت گردانہ حملوں میں 4653 افراد ہلاک جب کہ پانچ ہزار سے زائد زخمی ہوئے۔ زیادہ تر حملے طالبان نے کیے جن میں پولیس، عام شہریوں اور حکومتی دفاتر کو نشانہ بنایا گیا۔ افغانستان کا جی ٹی آئی اسکور 9.39 رہا۔
تصویر: Getty Images/AFP/S. Marai
نائجیریا
دہشت گردی سے متاثرہ ممالک کی فہرست میں جی ٹی آئی اسکور 8.66 کے ساتھ نائجیریا اس تیسرے نمبر پر ہے۔ سن 2017 کے دوران نائجیریا میں دہشت گردی کے سبب ہلاکتوں کی تعداد ڈیڑھ ہزار سے کچھ زائد رہی جو اس سے گزشتہ برس کے مقابلے میں سولہ فیصد کم ہے۔
تصویر: Reuters/Stringer
شام
سن 2016 کی نسبت گزشتہ برس شام میں دہشت گردانہ حملوں میں ہلاکتوں کی تعداد اڑتالیس فیصد کم رہی۔ اس کے باوجود خانہ جنگی کا شکار یہ ملک قریب گیارہ سو ہلاکتوں کے ساتھ دہشت گردی سے متاثرہ ممالک کی فہرست میں چوتھے نمبر پر ہے۔ گزشتہ برسوں کے دوران شام میں دہشت گردانہ کارروائیوں میں زیادہ تر داعش اور النصرہ کے شدت پسند ملوث تھے۔ شام کا اسکور 8.6 سے کم ہو کر اس رپورٹ میں 8.3 رہا۔
تصویر: Getty Images/AFP
پاکستان
پانچویں نمبر پر پاکستان ہے جہاں گزشتہ برس 576 دہشت گردانہ واقعات میں ساڑھے آٹھ سو انسان ہلاک ہوئے۔ 2016ء کے مقابلے میں گزشتہ برس تحریک طالبان پاکستان کی کارروائیوں میں ہلاک ہونے والے افراد کی تعداد 17 فیصد کم رہی۔ داعش خراسان کے حملوں میں 50 فیصد جب کہ لشکر جھنگوی کے حملوں کے باعث ہلاک ہونے والوں کی تعداد میں 17 فیصد اضافہ ہوا۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Hassan
صومالیہ
دہشت گردی سے متاثرہ ممالک کی امسالہ فہرست میں صومالیہ چھٹے نمبر پر رہا، گزشتہ انڈیکس میں صومالیہ ساتویں نمبر پر تھا۔ اس ملک میں الشباب تنظیم سے تعلق رکھنے والے دہشت گردوں نے نوے فیصد سے زائد حملوں کی ذمہ داری قبول کی۔ صومالیہ میں دہشت گردی کے سبب ہلاکتوں کی تعداد میں 93 فیصد اضافہ دیکھا گیا۔ جی ٹی آئی انڈیکس میں صومالیہ کا اسکور 7.6 سے بڑھ کر 8.02 ہو گیا۔
تصویر: picture alliance/dpa/AAS. Mohamed
بھارت
بھارت بھی اس فہرست میں آٹھ کی بجائے ساتویں نمبر پر آ گیا۔ دہشت گردی کے واقعات میں اضافہ ہوا جب کہ ہلاکتوں کی تعداد میں بھی بارہ فیصد اضافہ نوٹ کیا گیا۔ سن 2017 میں مجموعی طور پر 384 بھارتی شہری دہشت گردی کا نشانہ بن کر ہلاک جب کہ چھ سو سے زائد افراد زخمی ہوئے۔ انڈیکس کے مطابق بھارت کے مشرقی حصے میں ہونے والی زیادہ تر دہشت گردانہ کارروائیاں ماؤ نواز باغیوں نے کیں۔ بھارت کا اسکور 7.57 رہا۔
تصویر: Getty Images/AFP/N. Seelam
یمن
یمن میں متحارب گروہوں اور سعودی قیادت میں حوثیوں کے خلاف جاری جنگ کے علاوہ اس ملک کو دہشت گردانہ حملوں کا بھی سامنا ہے۔ تاہم سن 2016 کے مقابلے میں دہشت گردانہ حملوں میں ہلاکتوں کی تعداد 75 فیصد کم رہی۔ مجموعی طور پر دہشت گردی کے 141 واقعات میں 378 افراد ہلاک ہوئے۔ دہشت گردی کے ان واقعات میں حوثی شدت پسندوں کے علاوہ القاعدہ کی ایک شاخ کے دہشت گرد ملوث تھے۔ گزشتہ انڈیکس میں یمن چھٹے نمبر پر تھا۔
تصویر: Reuters/F. Salman
مصر
مصر ایک مرتبہ پھر دہشت گردی سے متاثرہ ٹاپ ٹین ممالک میں شامل ہو گیا۔ 169 دہشت گردانہ واقعات میں 655 افراد ہلاک ہوئے۔ زیادہ تر حملے داعش کے گروہ نے کیے۔ مصر کا جی ٹی آئی اسکور 7.35 رہا۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/S. Abdallah
فلپائن
دہشت گردی کے 486 واقعات میں 326 انسانوں کی ہلاکتوں کے ساتھ فلپائن بھی ٹاپ ٹین میں شامل کیا گیا۔ فلپائن کا انڈیکس اسکور 7.2 رہا۔ فلپائن میں پینتیس فیصد حملوں کی ذمہ داری کمیونسٹ ’نیو پیپلز آرمی‘ نے قبول کی جب کہ داعش کے ابوسیاف گروپ کے حملوں میں بھی اٹھارہ فیصد اضافہ ہوا۔
تصویر: Reuters/E. de Castro
ڈیموکریٹک ریپبلک آف کانگو
گلوبل ٹیررازم انڈیکس میں 7.05 کے اسکور کے ساتھ گیارہویں نمبر جمہوری جمہوریہ کانگو ہے۔
تصویر: DW/J. Kanyunyu
ترکی
ترکی گزشتہ انڈیکس میں پہلی مرتبہ پہلے دس ممالک کی فہرست میں شامل کیا گیا تھا۔ اس برس ترکی میں دہشت گردی کے واقعات اور ان کے سبب ہونے والی ہلاکتوں کی تعداد کم ہوئی۔ موجودہ انڈیکس میں ترکی کا اسکور 7.03 رہا۔ دہشت گردی کے زیادہ تر حملوں کی ذمہ داری پی کے کے اور ٹی اے کے نامی کرد شدت پسند تنظیموں نے قبول کی جب کہ داعش بھی ترک سرزمین پر دہشت گردانہ حملے کیے۔
تصویر: Reuters/Y. Karahan
لیبیا
لیبیا میں معمر قذافی کے اقتدار کے خاتمے کے بعد یہ ملک تیزی سے دہشت گردی کی لپیٹ میں آیا۔ گلوبل ٹیررازم انڈیکس کے مطابق 2016ء میں لیبیا میں 333 دہشت گردانہ حملوں میں پونے چار سو افراد ہلاک ہوئے تھے۔ دہشت گردی کی اکثر کارروائیاں دہشت گرد تنظیم ’اسلامک اسٹیٹ‘ سے منسلک مختلف گروہوں نے کیں۔ گزشتہ انڈیکس میں لیبیا 7.2 کے اسکور کے ساتھ دسویں جب کہ تازہ انڈیکس میں 6.99 اسکور کے ساتھ تیرہویں نمبر پر ہے۔