1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

دہلی دھماکہ، بیٹے کی گرفتاری کے خلاف باپ کی خود سوزی

رابعہ بگٹی ایجنسیاں
26 نومبر 2025

بلال احمد وانی، ان کے بڑے بیٹے جاسر سمیت ان کے بھائی اور چھوٹے بیٹے کو دہلی دھماکے کے نتیجے میں گرفتار کیا گیا تھا۔ جاسر کے علاوہ تمام افراد کو بعد میں رہا کر دیا گیا۔

سکیورٹی کی صورتحال کو قابو میں رکھنے کے لیے بھارتی نیم فوجی دستے سری نگر میں 14 نومبر 2025 کو سکیورٹی چیک کے دوران پہرہ دے رہے ہیں۔
دہلی میں دھماکے کے بعد کشمیر میں سکیورٹی کی صورتحال کو قابو میں رکھنے کے لیے بھارتی نیم فوجی دستے سری نگر میں 14 نومبر 2025 کو سکیورٹی چیک کے دوران پہرہ دے رہے ہیں۔تصویر: Firdous Nazir/NurPhoto/IMAGO

بھارتی زیرِ انتظام کشمیر میں 55 سالہ خشک میوہ فروش بلال احمد وانی کی موت ایک دل دہلا دینے والے حادثے کی علامت بن کر اُبھری ہے۔ یہ ایک ایسا واقعہ تھا جو اس خطے میں جاری سخت سکیورٹی کریک ڈاؤن کے سبب لوگوں میں دبے خوف، غصے اور بے بسی کی واضح علامت ہے۔
وانی نے دس نومبر کو دہلی دھماکے میں ملوث ہونے کے الزام میں پوچھ گچھ کی غرض سے حراست سے رہائی کے چند گھنٹے بعد خود کو آگ لگا لی تھی اور اگلے ہی روز وہ ہسپتال میں دم توڑ گیا۔

اس کے رشتہ دار میڈیا سے بات کرنے سے خوفزدہ نظر آتے ہیں تاہم شناخت خفیہ رکھنے کی شرط پر انہوں نے بتایا کہ دورانِ حراست پولیس کی جانب سے ہتک آمیز رویہ، سخت تفتیش، شدید ذہنی اور جسمانی دباؤ اور پھر اپنی رہائی کے دوسرے روز ہی بیٹے کی گرفتاری نے اسے اندر سے توڑ دیا تھا۔

نئی دہلی دھماکے کے بعد خوف کی ایک نئی لہر

 دس نومبر کو نئی دہلی کے لال قلعے کے قریب دھماکے کے نتیجے میں کم از کم 10 افراد جان سے گئے اور 32 افراد زخمی ہوئے۔ اسی رات کے بعد بھارتی تحقیقاتی اداروں نے اپنی توجہ فوراً کشمیر کی سکیورٹی پر مرکوز کردی۔ ایک کے بعد ایک چھاپے، پوچھ گچھ اور سینکڑوں گرفتاریاں عمل میں لائی گئیں۔
حکام نے اس واقعے کو دہشت گردی کا انتہائی سنگین واقعہ قرار دیا اور پھر اس کا ردِ عمل بھی شدید سامنے آیا۔ 

بھارت اور پاکستان کشیدگی پر کشمیری کیا کہتے ہیں؟

07:54

This browser does not support the video element.

اس حملے کے تین دن بعد کشمیر کے شہر سری نگر میں ایک پولیس اسٹیشن میں ضبط شدہ مواد میں اچانک دھماکہ ہونے کے نتیجے میں مزید نو اہلکار اور شہری ہلاک ہوئے۔ یہ ایک واقعہ تھا جس نے مشتبہ افراد کے خلاف جاری کریک ڈاؤن کو اور بھی تیز کر دیا۔

اسی دوران، وانی کے بڑے بیٹے جاسر بلال وانی کو حراست میں لیا گیا۔ ایک دن بعد بلال وانی، اس کے چھوٹے بیٹے اور فزکس کے لیکچرر بھائی کو بھی گرفتار کیا گیا لیکن اسی رات ان تینوں کو رہا کر دیا گیا تاہم جاسر اب بھی زیر حراست ہے۔
وانی کے رشتے دار کہتے ہیں کہ رہائی کے بعد وہ گھر لوٹا تو سہما ہوا، خاموش اور گہری مایوسی میں ڈوبا ہوا تھا۔ اگلی صبح، وہ گھر سے باہر نکلا، اپنے جسم پر پٹرول چھڑکا اور خود کو آگ لگا لی۔

پڑوسیوں نے اُسے ہسپتال منتقل کیا تاہم وہ جانبر نا ہوسکا۔ وانی کے رشتہ دار یہ بھی کہتے ہیں کہ وہ بے قصور تھا اور اسے اور اس کے خاندان کو قربانی کا بکرا بنایا گیا ہے۔

2019 کے بعد اب تک کا سب سے سخت کریک ڈاؤن

کشمیر میں سخت سکیورٹی کارروائیاں کوئی نئی بات نہیں ہیں مگر اس بار شدت غیر معمولی ہے۔ خاص طور پر 2019 میں آرٹیکل 370 کی منسوخی کے بعد جب اس خطے کی محدود خودمختاری بھی ختم کردی گئی۔

بھارتی حکومت کی جانب سے اس اقدام کے بعد سے آزادی کے حامی گروہوں پر پابندیاں، صحافیوں اور انسانی حقوق کے لیے آواز بلند کرنے والے کارکنان اور عام شہریوں پر قدغنیں مزید بڑھا دی گئیں۔

ڈاکٹروں اور طلبہ پر بڑھتی نگرانی

حکام کا ماننا ہے کہ دہلی دھماکے میں استعمال ہونے والی گاڑی ایک کشمیری شخص کے نام رجسٹرڈ تھی اور مشتبہ شخص ڈاکٹر عمر النبی اس کا مرکزی ملزم ہے۔

حکام نے بتایا کہ سرکاری اہلکاروں نے کشمیر کے جنوبی پلوامہ ضلع میں ڈاکٹر عمر النبی کے خاندانی گھر کو بھی مسمار کر دیا۔ بھارتی فوج نے اس سے قبل ان مشتبہ افراد کے گھروں کو بھی منہدم کیا جن پر وہ کشمیر میں بھارتی حکمرانی کے خلاف لڑنے والے عسکریت پسندوں کی مدد کرنے کا الزام لگاتے ہیں۔

حکام کی جانب سے الزام عائد کیا گیا ہے کہ وانی کے بیٹے نے "دہشت گردی اور قتلِ عام کی منصوبہ بندی کے لیے دہشت گرد ڈاکٹر عمر النبی کے ساتھ مل کر کام کیا"، اور  یہ بھی کہ اس نے ڈرونز اور راکٹ بنانے کی کوشش کے ذریعے دہشت گردوں کو تکنیکی مدد فراہم کی تھی۔

کھیربھوانی میلے پر پہلگام حملے کے سائے

03:00

This browser does not support the video element.

وائٹ کالر ٹیرر ماڈیول

اس سب کے بیچ بھارتی پولیس نے ایک اور کریک ڈاؤن کا آغاز بھی کیا ہے جسے بنیاد پرست پیشہ ور افراد اور طلباء کا "وائٹ کالر ٹیرر ماڈیول" قرار دیا ہے۔ اس کریک ڈاؤن میں کئی کشمیری ڈاکٹروں کی جانچ پڑتال شروع ہو چکی ہے۔ پولیس نے کہا کہ ایسے افراد نے "پاکستان اور دیگر ممالک میں مقیم غیر ملکی ہینڈلرز" سے رابطہ برقرار رکھا ہوا ہے۔

سکیورٹی حکام نے مبینہ طور پر ڈاکٹروں کے ذاتی پس منظر، پیشہ ورانہ نیٹ ورکس اور نظریاتی جھکاؤ کے بارے میں تفصیلات طلب کی ہیں۔ اس دوران  ان پیشہ ور افراد کی بے چینی اور خوف میں اضافہ ہوا ہے۔ کئی ڈاکٹروں نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بات کی، کیونکہ انہیں میڈیا سے بات کرنے پر انتقامی کارروائی کا خدشہ تھا، انہوں نے اس جانچ کو ان کی ذاتی اور پیشہ ورانہ زندگی میں دخل اندازی قرار دیا۔

اویناش موہانے جو کہ ایک سابق بھارتی انٹیلی جنس افسر ہیں، کا کہنا ہے، "اس کریک ڈاؤن میں قطع نظر اس کے کہ حکام اسے کچھ بھی کہتے ہیں،  میں پڑھے لکھے لوگ شامل ہیں اور یہ گہرے غصے کی عکاسی کرتا ہے۔" موہانے نے کہا کہ کشمیریوں میں اس کے خلاف گہرا غم و غصہ پایا جاتا ہے۔

کشمیر کے انتظام پر دہلی اور اسلام آباد کی رسہ کشی

 کشمیر کے بھارت کے زیر کنٹرول حصے میں عسکریت پسند 1989 سے نئی دہلی کی حکمرانی کے خلاف لڑ رہے ہیں۔ دہلی کا اصرار ہے کہ کشمیر میں عسکریت پسندی پاکستان کی سرپرستی میں جاری ہے۔ پاکستان اس الزام کی تردید کرتا ہے۔ دوسری جانب  بہت سے کشمیری اسے ایک جائز آزادی کی جدوجہد سمجھتے ہیں۔

بھارت اور پاکستان دونوں ہی کشمیر کے دو الگ حصوں کا نظم و نسق سنبھالے ہوئے ہیں لیکن دونوں ہی مخالف فریق کے پاس موجود علاقے پر مکمل دعویٰ کرتے ہیں۔ انٹرنیشنل کرائسز گروپ کے ایک سینئر تجزیہ کار پروین ڈونتھی نے کہا کہ بھارت کے 2019 کے فیصلے کے بعد سیاسی حق رائے دہی سے محرومی کشمیریوں کے اندر "خاموش غصے اور عسکریت پسندی کے پہلو کو ہوا دے رہی ہے۔"

بھارتی زیر انتظام اس خطے میں حکام نے آزادی کے حامی گروپوں، آزادی صحافت اور انسانی حقوق کے لیے سرگرم کارکنوں کے خلاف کریک ڈاؤن بڑھا دیا ہے۔ نئی دہلی اب "نیا کشمیر" کا تصور پیش کرتی ہے جس میں اختلافِ رائے کی گنجائش نظر نہیں آتی۔

پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں کشیدگی بڑھتی ہوئی

02:32

This browser does not support the video element.

ڈونتھی کا ماننا ہے کہ نئی دہلی دھماکے کے بعد کریک ڈاؤن "موجودہ عدم تحفظ اور احساسِ محرومی" میں اضافہ کر رہا ہے، جس سے لاتعلقی اور غصے کو دور کرنے میں مدد کا امکان نہیں ہے، بلکہ انہیں مزید تقویت ملے گی۔

انہوں نے کہا، "خطے کے لیے نئی دہلی کی طرف سے ایک معتدل نقطہ نظر تشدد کے مزید بڑھنے سے روکنے میں کہیں زیادہ مؤثر ثابت ہو گا۔"

 

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں
ڈی ڈبلیو کی ٹاپ اسٹوری سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی ٹاپ اسٹوری

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں