بھارتی دارالحکومت دہلی میں گزشتہ تین روز سے جاری فسادات میں ہلاک ہونے والی ہلاکتیں بیس ہوگئی ہیں۔ طبی حکام نے زخمیوں کی تعداد تقریبا ڈھائی سو بتائی ہے۔ بھارتی دارالحکومت میں صورت حال اب بھی کشیدہ ہے۔
اشتہار
بھارتی دارالحکومت نئی دہلی میں شدید تناؤ کی کیفیت ہے اور بیشتر متاثرہ علاقوں میں کرفیو نافذ ہے۔ر صورت حال کا جازہ لینے کے لیے سلامتی سے متعلق مرکزی کابینہ کی کمیٹی کی ایک میٹنگ بھی ہوئی ہے۔ کشیدگی کی وجہ سے شدید متاثرہ علاقوں میں کرفیو کا نفاذ کر دیا گیا ہے۔
بدھ 26 فروری کو بھی شمال مشرقی دہلی کے بعض علاقوں میں آگ لگانے کے واقعات رونما ہوئے۔ اس دوران پولیس اور نیم فوجی دستوں کا متاثرہ علاقوں میں فلیگ مارچ جاری ہے۔ دہلی میں آج سے بارہویں اور دسویں جماعت کے امتحانات شروع ہونے والے تھے جنہیں متاثرہ علاقوں میں ملتوی کر دیا گیا ہے۔ گزشتہ روز حکومت نے حالات پر قابو پانے پانے کے لیے پولیس اور پیرا ملٹری فورسز کی 67 اضافی کمپناں تعینات کرتے ہوئے بلوائیوں کو دیکھتے ہی گولی مارنے کے احکامات دے رکھے ہیں۔
ادھر قومی سلامتی کے مشیر اجیت ڈوال نے دیر رات میں متاثرہ علاقوں کا دورہ کیا اور صبح انھوں نے صورت حال سے متعلق کابینہ کو بریف کیا۔ حکام کے مطابق بیشتر افراد گولی لگنے سے ہلاک ہوئے ہیں۔ ادھر شہریت ترمیمی قانون کے خلاف جعفرآباد میں کئی ہفتوں سے جاری خواتین کے احتجاجی دھرنے کو گزشتہ شب ختم کرانے کے ساتھ ساتھ اس میں شریک خواتین کو ہٹا دیا گيا ہے۔
دلی کے وزیر اعلی اروند کیجری وال نے صورت حال کو انتہائی تشویشناک بتاتے ہوئے فوج کی تعیناتی کا مطالبہ کیا ہے۔ انھوں نے اپنی ٹویٹ میں لکھا، "میں رات بھر بہت سے لوگوں کے رابطے میں رہا ہوں، اپنی تمام کوششوں کے باوجود پولیس حالات پر قابو نہیں پا سکی ہے، متاثرہ علاقوں میں فوری طور پر فوج کو تعینات کرنے اور کرفیو نافذ کرنے ضرورت ہے۔ میں اس کے لیے وزیر داخلہ کو لکھ رہا ہوں۔" واضح رہے کہ دہلی میں سکیورٹی کے تمام معاملات اور پولیس مرکزی حکومت کے ماتحت ہے۔
دہلی ہائی کورٹ میں بھارتیہ جنتا پارٹی کے تین رہنماؤں کے خلاف کارروائی کے لیے درخواست دی گئی درخواست کی پر سماعت کے دوران عدالت نے کہا کہ پولیس خود کارروائی کرے اور بدھ 26 فروری کی دو پہر تک اپنی کارروائی سے عدالت کو آگاہ کرے۔ دلی ہائی کورٹ کی دو رکنی بینچ نے اس سلسلے میں نصف شب میں سماعت کی اور پولیس کو ہدایات جاری کیں کہ کرفیو زدہ علاقوں سے زخمیوں کو ہسپتالوں تک پہنچانے کے مناسب اقدامات کیے جائیں۔
شمال مشرقی دلی میں بھجن پورہ، جعفرآباد، سیلم پور، کراول نگر، موج پو، چاند باغ اور دیال پور جیسے علاقے تشدد سے بری طرح متاثر ہوئے ہیں جہاں ایک خاص مذہبی آبادیوں کو نشانہ بنایا گیا ہے۔
دہلی کے انگریزی کے بعض بڑے اخبارات نے لکھا ہے کہ ان مذہبی فسادات کے دوران مسلمانوں کی دکانوں اور مکانات کو چن چن کر نشانہ بنایا گيا ہے۔ میڈیا میں پولیس کے جانبدارانہ رویے پر بھی سخت نکتہ چینی جاری ہے۔ ایسے متعدد ویڈیوز سوشل میڈیا پر وائرل ہو چکے ہیں جس میں پولیس کو بلوائیوں کی مدد کرتے دیکھا جا سکتا ہے۔
’کشمیری‘پاک بھارت سیاست کی قیمت کیسے چکا رہے ہیں؟
بھارت اور پاکستان کشمیر کے موضوع پر اپنی لڑائی جاری رکھے ہوئے ہیں۔ ہمالیہ کے اس خطے کو گزشتہ تین دہائیوں سے شورش کا سامنا ہے۔ بہت سے کشمیری نئی دہلی اور اسلام آباد حکومتوں سے تنگ آ چکے ہیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/T. Mustafa
بڑی فوجی کارروائی
بھارتی فوج نے مسلح باغیوں کے خلاف ابھی حال ہی میں ایک تازہ کارروائی کا آغاز کیا ہے۔ اس دوران بیس دیہاتوں کا محاصرہ کیا گیا۔ نئی دہلی کا الزام ہے کہ اسلام آباد حکومت شدت پسندوں کی پشت پناہی کر رہی ہے۔
تصویر: picture alliance/AP Photo/C. Anand
فوجیوں کی لاشوں کی تذلیل
بھارت نے ابھی بدھ کو کہا کہ وہ پاکستانی فوج کی جانب سے ہلاک کیے جانے والے اپنے فوجیوں کا بدلہ لے گا۔ پاکستان نے ایسی خبروں کی تردید کی کہ سرحد پر مامور فوجی اہلکاروں نے بھارتی فوجیوں کو ہلاک کیا ان کی لاشوں کو مسخ کیا۔
تصویر: H. Naqash/AFP/Getty Images
ایک تلخ تنازعہ
1989ء سے بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں مسلم باغی آزادی و خود مختاری کے لیے ملکی دستوں سے لڑ رہے ہیں۔ اس خطے کی بارہ ملین آبادی میں سے ستر فیصد مسلمان ہیں۔ اس دوران بھارتی فورسز کی کاررائیوں کے نتیجے میں 70 ہزار سے زائد کشمیری ہلاک ہو چکے ہیں۔
تشدد کی نئی لہر
گزشتہ برس جولائی میں ایک نوجوان علیحدگی پسند رہنما برہان وانی کی ہلاکت کے بعد سے بھارتی کشمیر میں حالات کشیدہ ہیں۔ نئی دہلی مخالف مظاہروں کے علاوہ علیحدگی پسندوں اور سلامتی کے اداروں کے مابین تصادم میں کئی سو افراد مارے جا چکے ہیں۔
تصویر: Reuters/D. Ismail
اڑی حملہ
گزشتہ برس ستمبر میں مسلم شدت پسندوں نے اڑی سیکٹر میں ایک چھاؤنی پر حملہ کرتے ہوئے سترہ فوجی اہلکاروں کو ہلاک جبکہ تیس کو زخمی کر دیا تھا۔ بھارتی فوج کے مطابق حملہ آور پاکستان سے داخل ہوئے تھے۔ بھارت کی جانب سے کی جانے والی تفتیش کی ابتدائی رپورٹ میں کہا گیا کہ حملہ آوروں کا تعلق پاکستان میں موجود جیش محمد نامی تنظیم سے تھا۔
تصویر: UNI
کوئی فوجی حل نہیں
بھارت کی سول سوسائٹی کے کچھ ارکان کا خیال ہے کہ کشمیر میں گڑ بڑ کی ذمہ داری اسلام آباد پر عائد کر کے نئی دہلی خود کو بے قصور نہیں ٹھہرا سکتا۔ شہری حقوق کی متعدد تنظیموں کا مطالبہ ہے کہ وزیر اعظم نریندر مودی کو چاہیے کہ وہ وادی میں تعینات فوج کی تعداد کو کم کریں اور وہاں کے مقامی افراد کو اپنی قسمت کا فیصلہ خود کرنے دیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/T. Mustafa
انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں
بھارتی حکام نے ایسی متعدد ویڈیوز کے منظر عام پر آنے کے بعد، جن میں بھارتی فوجیوں کو انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں کرتے دیکھا جا سکتا ہے، کشمیر میں سماجی تعلقات کی کئی ویب سائٹس کو بند کر دیا ہے۔ ایک ایسی ہی ویڈیو میں دیکھا جا سکتا کہ فوج نے بظاہر انسانی ڈھال کے طور پر مظاہرہ کرنے والی ایک کشمیری نوجوان کواپنی جیپ کے آگے باندھا ہوا ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/
ترکی کی پیشکش
ترک صدر رجب طیب ایردوآن نے بھارت کے اپنے دورے کے موقع پر کشمیر کے مسئلے کے ایک کثیر الجہتی حل کی وکالت کی۔ ایردوآن نے کشمیر کے موضوع پر پاکستان اور بھارت کے مابین کشیدگی پر تشویش کا اظہار بھی کیا۔ بھارت نے ایردوآن کے بیان کو مسترد کر تے ہوئے کہا کہ مسئلہ کشمیر صرف بھارت اور پاکستان کے مابین دو طرفہ طور پر ہی حل کیا جا سکتا ہے۔
تصویر: Reuters/A. Abidi
غیر فوجی علاقہ
پاکستانی کشمیر میں جموں کشمیر لبریشن فرنٹ کے صدر توقیر گیلانی نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’وقت آ گیا ہے کہ بھارت اور پاکستان کو اپنے زیر انتظام علاقوں سے فوج ہٹانے کے اوقات کار کا اعلان کرنا چاہیے اور ساتھ ہی بین الاقوامی مبصرین کی نگرانی میں ایک ریفرنڈم بھی کرانا چاہیے‘‘
تصویر: picture-alliance/dpa/J. Singh
علیحدگی کا کوئی امکان نہیں
کشمیر پر نگاہ رکھنے والے زیادہ تر مبصرین کا خیال ہے کہ مستقبل قریب میں کشمیر کی بھارت سے علیحدگی کا کوئی امکان موجود نہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ کشمیر میں شدت پسندوں اور علیحدگی پسندوں سےسخت انداز میں نمٹنے کی بھارتی پالیسی جزوی طور پر کامیاب رہی ہے۔ مبصرین کے بقول، جلد یا بدیر نئی دہلی کو اس مسئلے کا کوئی سیاسی حل ڈھونڈنا ہو گا۔