1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
قانون کی بالادستیایشیا

دہلی میں بے گھر ہونے کا کرب

13 جنوری 2021

میں یہ اذیت ناک منظر ہر سال دیکھتی ہوں کہ کھلے آسمان کے نیچے ہزاروں لوگ، جن میں بچے بوڑھے اور خواتین سبھی شامل ہیں، فٹ پاتھوں، عام شاہراؤں اور پلوں کے نیچے ٹھٹھر ٹھٹھر کر جیتے ہیں اور ان کا کوئی پرسان حال نہیں ہوتا۔

Indien Obdachloser in Delhi
تصویر: Zeenath Akhtar/DW

ان میں سے شاید ہی کسی  کے دل میں یہ امید باقی ہو کہ کبھی انہیں اپنی زندگی میں ایک ذاتی چھت نصیب ہو گی۔ یہ لوگ اس دنیا سے ایک لاوارث اور گمنام شخص کی طرح رخصت ہو جاتے ہیں۔ ایسی ہی ایک بدقسمت خاتون شاہانہ بیگم کو نئے سال کا سورج دیکھنا نصیب نہیں ہوا تھا۔ اس 65 سالہ خاتون کا بسیرا  درگاہ حضرت نظام الدین اولیا کا فٹ پاتھ تھا۔ یکم جنوری کو جب صبح دیر گئے تک وہ نہیں جاگی تو مقامی لوگوں کو فکر ہوئی کہ کیا معاملہ ہے۔ انہوں نے اسے جگانے کی کوشش کی مگر اس کی روح تو پرواز کر چکی تھی۔

 شاہانہ بیگم کے لیے اس رات کی شدید سردی جان لیوا ثابت ہوئی۔ مرحومہ سے اکثر میری سر راہ ملاقات ہو جایا کرتی تھی، جو وسطی بھارت کے جبل پور شہر سے تقریبا بیس سال پہلے یہاں آ کر رہ رہی تھیں۔ اپنے بناؤ سنگھار کی وجہ سے وہ ہر آنے جانے والے کی توجہ کا مرکز بنتی تھیں۔ دراصل وہ اس کے ذریعے اپنی تنہائی اور بے بسی کے کرب کو چھپا نے کی کوشش کرتی تھیں۔ بہرحال لاوارث موت کے ایسے درد ناک واقعات بھارتی دارالحکومت دہلی اور ملک کے دیگر بڑے شہروں میں ایک معمول کی بات ہے۔ نہ حکومت کی بے حسی ٹوٹتی ہے نہ معاشرے کی۔

بلاگر زینت اخترتصویر: privat

بھارت کی موجودہ وفاقی حکومت یہ دعوی کرتی ہے کہ وہ  2022ء  تک سب شہریوں کو مکان فراہم کر دے گی۔ اس سلسلے میں حکومت نے 2015ء میں ایک قانون بھی پاس کیا ہے، جس کا نام ہے 'ہاؤسنگ فار آل ایکٹ'۔ اس کے تحت 'پردھان منتری آواس یوجنا'اسکیم شروع کی گئی ہے۔

مگرخود دارالحکومت دہلی کا یہ حال ہے کہ ایک تخمینہ کے مطابق یہاں دو لاکھ سے زائد لوگ گلیوں اور سڑکوں پر زندگی بسر کرتے ہیں، جہاں اس وقت شدید سردی اور بارش کا موسم ہے۔ خصوصاً دسمبر اور جنوری میں درجہ حرارت عموما چار ڈگری نیچے تک چلا جاتا ہے۔ مزید برآں یہ کہ شمال کے بالائی علاقوں سے چلنے والی برفانی ہوائیں سردی کو دوآتشہ کر دیتی ہیں۔

 اس صورتحال سے نمٹنے میں حکومت کی بے حسی عیاں ہوتی ہے۔ اس نے پورے شہر دہلی میں محض ڈھائی سو سے زائد عارضی شیلٹر ہوم قائم کر رکھے ہیں، جن میں بمشکل آٹھ ہزار لوگ قیام کر سکتے ہیں۔ ان میں بھی کووڈ انیسس سے بچاؤ کا کوئی خیال نہیں رکھا جاتا۔

ویسے ان عارضی خیموں میں پناہ لینا یا نہ  لینا ایک برابر ہے۔ نہ وہاں سردی سے بچنے کا مناسب انتظام ہے اور نہ ہی صفائی کا۔ ایک بزرگ خاتون نے مجھ سے کہا کہ یہ شیلٹرہوم نہیں، گندے ہوم ہیں، جہاں ایک عام انسان کا رہنا محال ہے، فٹ پاتھوں پر سونا زیادہ بہتر ہے۔  ان لوگوں کو یہ بھی شکوہ ہے کہ انہیں نہ  تو کوئی رضائی اور نہ ہی کمبل فراہم  کیا جاتا ہے۔ اسی طرح یہ خیمے پوری طرح سے بند نہیں ہیں، جن میں سرد ہوا داخل ہوتی ہے۔

ایسے شیلٹر ہومز کا انتظام دہلی اربن شیلٹر امپورومنٹ بورڈ کرتا ہے، جس کے پاس بے آسرا لوگوں کی صحیح تعداد بھی موجود نہیں ہے۔ یہ ادارہ دہلی کی مقامی حکومت کے تحت کام کرتا ہے۔ ادارے کے ایک افسر کے مطابق کہ ان شیلٹر ہومز میں 18,000 افراد تک کو آسرا دینے کی گنجائش ہے لیکن کورونا وباء کے پیش نظر یہ تعداد گھٹاکر سات ہزار کر دی گئی ہے۔ گزشتہ سال بھارتی سپریم کورٹ نے اس معاملے کا نوٹس لیتے ہوئے شیلٹر ہومز کی نگرانی کے لیے ایک کمیٹی تشکیل دی تھی۔ اس کمیٹی کی ایک رکن اندو پرکاش سنگھ کے مطابق شیلٹر ہوم کا انتظامات کا ازسر نو جائزہ لینا ضروری ہے۔  

تصویر: DW/P. Samanta

ویسے بے گھر افراد کا معاملہ ایک عالمی مسئلہ ہے۔ یہ مسئلہ ترقی یافتہ اور ترقی پذیر دونوں ملکوں کو درپیش ہے اسی لیے ہر سال 10اکتوبر کو دنیا کی توجہ اس مسئلے کی طرف مبذول کروانے کے لیے ورلڈ ہوم لیس ڈے کا اہتمام کیا جاتا ہے۔

ایک تنظیم 'ہوم لیس ورلڈ کپ' کے مطابق بھارت کی ایک ارب تیس کروڑ آبادی میں سال 2019 میں 18 لاکھ بے آسرا افراد تھے۔ نیز 2011 کی مردم شماری میں 17لاکھ افراد کو بے گھر بتایا گیا تھا۔ تاہم اس میدان میں کام کرنے والی ایک غیرسرکاری تنظیم 'ہاوسنگ اینڈ لینڈ رائٹس نیٹ ورک' ان اعداد وشمارکو غلط قرار دیتی ہے۔ اس نے ماہرین، غیر سرکاری تنظیموں اور دیگر اداروں کے حوالے سے یہ دعوی کیا ہے کہ بھارت کے شہری علاقوں میں بے آسرا افراد کی تعداد چالیس لاکھ ہے۔

بھارت اپنے دستور کے تحت ایک فلاحی ریاست ہے۔ چنانچہ یہ حکومت کی آئینی ذمہ داری ہے کہ وہ تمام شہریوں کو بنیادی ضروریات روٹی،کپڑا اور مکان مہیا کرے۔  مجھے اس بات پر قلق ہوتا ہے کہ حکومت ان بنیادی مسائل کی طرف توجہ دینے کے بجائے اپنی 'شاہ خرچیوں' میں مبتلا ہے۔ وہ عوامی مخالفت کے باوجود نئی پارلیمان کی عمارت کے منصوبے پر بیس ہزار کروڑ روپے اور وزیراعظم کے خصوصی جیٹ طیارے کو خریدنے کے لیے تقریباً ساڑھے آٹھ ہزار کروڑ روپے خرچ کر رہی ہے۔

تصویر: DW/S. Ghosh
ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں