1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

دہلی میں کشمیری رہنماؤں کی مودی سے ملاقات

24 جون 2021

بھارت کے زیر انتظام کشمیر کی سیاسی صورت حال پر تبادلہ خیال کے لیے آج نئی دہلی میں ایک اہم میٹنگ ہو رہی ہے۔ مبصرین کے مطابق یہ ملاقات بھارتی حکومت اور کشمیری رہنماؤں دونوں کے لیے ضروری ہے۔

Indien Kaschmir Jammu Srinagar | Treffen politischer Führer
تصویر: Danish Ismail/Reuters

 بھارتی حکومت نے اس بات چیت میں شرکت کے لیے 14 ہند نواز کشمیری رہنماؤں کو دعوت دی تھی اور وزير اعظم نریندر مودی کی صدارت میں ہونے والے اس اجلاس میں شرکت کے لیے ایک درجن سے بھی زیادہ کشمیری رہنما دہلی میں ہیں۔مبصرین کے مطابق سیاسی بقا کے لیے دہلی سے بات چيت جہاں کشمیری رہنماؤں کی مجبوری ہے وہیں کشمیر کے مسئلے پر بھارتی حکومت کو بھی ہند نواز رہنماؤں کی سخت ضرورت ہے۔

کون کون دہلی میں ہے؟

مقامی وقت کے مطابق دوپہر بعد بات چیت شروع ہوئی اور کئی گھنٹوں تک اس کے جاری رہنے کی توقع ہے۔ اس میں نیشنل کانفرنس کے صدر فاروق عبداللہ، ان کے بیٹے عمر عبداللہ، پی ڈی پی کی سربراہ محبوبہ مفتی اور کانگریس کے رہنما غلام نبی آزاد جیسے چار سابق وزارء اعلی سمیت متعدد سیاسی جماعتوں کے رہنما حصہ لے رہے ہیں۔

اس میٹنگ میں شرکت کرنے والے کشمیر کے وہی تمام ہند نواز رہنما ہیں، جنہیں دفعہ 370 کے خاتمے سے پہلے جیلوں میں قید کر دیا گيا تھا پھر کئی مہینے بعد انہیں رہا کر دیا گيا۔ ان میں سے ایک بڑی تعداد اب بھی جیلوں میں قید ہے۔ اس موقع پر مختلف حلقے یہ سوال کر رہے ہیں کہ آخر ایسی کیا ایمرجنسی تھی کہ جن کشمیری رہنماؤں کو حکومت نے جیلوں میں ڈال رکھا تھا وہی ایک آواز پر دہلی دوڑے چلے آئے۔

کشمیری رہنماؤں کی مجبوری

سیاسی مبصر اور کشمیر یونیورسٹی میں شعبہ سیاست کے سابق صدر نور احمد بابا کہتے ہیں کہ دونوں ہی کی مجبوریاں ہیں، جس کی وجہ سے اس ملاقات کا اہتمام کیا گيا ہے۔ ڈی ڈبلیو اردو سے بات چيت میں انہوں نے کہا، "یہ کشمیر کے رہنماؤں کی سیاسی بقا کا سوال ہے۔ اگر وہ دہلی سے بات چيت نہیں کریں گے تو کشمیر میں ان کی سیاست کا کیا ہو گا۔ انہیں اپنی سیاست کے لیے کشمیر عوام سے رابطے میں رہنا ہے اور اسی لیے وہ یہ سب کر رہے ہیں۔ اب بات چيت سے وہ پرانا سلسلہ دوبارہ شروع کر سکیں گے جسے وہ دو تین سال سے نہیں کر پا رہے تھے۔ وہ یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ وہ اپنے موقف پر قائم ہیں اور جدوجہد کر رہے ہیں۔"

تصویر: Mukhtar Khan/AP/picture alliance

نور احمد بابا کے مطابق جس طرح مودی حکومت نے انہیں بات چيت کی دعوت دی ہے اس سے بھی یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ بھارتی حکومت  کو بھی کشمیر کے تعلق سے ایسے ہند نواز رہنماؤں کی سخت ضرورت ہے، "بلکہ ایک مجبوری ہے۔"

ان کا کہنا تھا کہ گزشتہ دو برس کے دوران مودی حکومت نے تمام کوششیں کر لی ہیں اور انہیں جیل میں ڈال کر ڈس کریڈٹ کرنے کی کوشش بھی کی،'' انہیں بدنام کیا، انہیں بولنے سے باز رکھا، بے عزت بھی کیا اور پھر بات چیت کے لیے انہیں دہلی بھی طلب کر لیا تو اس سے واضح ہو جاتا ہے کہ بھارتی حکومت کو بھی ان کی سخت ضرورت ہے۔ انہیں معلوم ہو گيا ہے کہ ان کے بغیر کشمیر میں شاید بات بننے والی نہیں ہے۔ تو یہ دونوں کی اپنی اپنی مجبوریاں اور کمزوریاں ہیں۔"

ایک سوال کے جواب میں نور احمد نے کہا کہ تاہم کشمیری عوام اس سے مطمئن نہیں ہیں۔ "کشمیر کے لوگ ان ہند نواز رہنماؤں کی سیاسی حکمت عملی کو شک و شبہے کی نظر سے دیکھتے ہیں۔ خاص طور پر دفعہ 370 کے ہٹائے جانے کے بعد سے ان میں جو  بے چینی پائی جاتی تھی اس میں بہت زیادہ اضافہ ہوا ہے۔ اس لیے عوامی سطح پر بہت خدشات پائے جاتے ہیں۔"

تاہم نور بابا نے بات چیت کا خیر مقدم کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ بات چيت سے ہی کوئی راستہ نکلتا ہے اس لیے اس اقدام کو مثبت نظریے سے دیکھنے میں کوئی برائی نہیں ہے۔ 

مودی کی حکومت نے پانچ اگست 2019 ء کو کشمیر کو خصوصی اختیارات دینے والی دفعہ 370 کو ختم کرتے ہوئے ریاست کو مرکز کے زیر انتظام دو علاقوں میں تقسیم کر دیا تھا۔ اس کے بعد سے کشمیری رہنماؤں اور بی جے پی کی حکومت کے درمیان بھی اعتماد کی کمی پائی جاتی ہے۔ تاہم اطلاعات کے مطابق وزیر اعظم مودی سیاسی عمل کا آغاز چاہتے ہیں تاکہ آگے چل کر اسمبلی انتخابات کا راستہ ہموار ہو سکے۔

جمہوری عمل بحال کرنے کی کوشش

بھارتی میڈیا کی خبروں کے مطابق موی کی حکومت نے حال ہی میں کشمیر کے الیکشن کمیشن سے رابطہ کیا ہے اور ان سے رائے مانگی ہے کہ اگر ریاست میں انتخاباب کرانے ہوں تو اس کا طریقہ کار کیا ہو سکتا اور کب کرائے جا سکتے ہیں۔ یہ اطلاعات پہلے ہی سے ہی سرخیوں میں ہیں کشمیر کو پھر سے ریاست کا درجہ دینے کی بات ہو رہی ہے اور اسی پر صلاح و مشورے کے لیے ان رہنماؤں کو بات چیت کے لیے دعوت دی گئی ہے۔

تاہم کشمیر میں دانشور کہتے ہیں بھارتی حکومت کی ان تمام کوششوں کا عوام پر کوئی خاص اثر نہیں پڑنے والا اور اس سے زمینی صورت حال بھی نہیں تبدیل ہونے والی۔ ان کے مطابق بھارت کی جانب سے یہ سب اس لیے کیا جا رہا ہے تاکہ دنیا کو یہ تاثر دیا جا سکے کہ کشمیر میں جمہوری عمل بحال کیا جا رہا ہے۔

پاک بھارت کشيدگی کی مختصر تاريخ

04:32

This browser does not support the video element.

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں
ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں