دہلی میں گردے فروخت کرنے والا گروہ بے نقاب
4 جون 2016نئی دہلی میں واقع انتہائی بہترین سہولیات سے آراستہ اپالو ہسپتال پر چھاپہ مار کر پولیس نے انسانی گردے فروخت کرنے والے ایک نیٹ ورک کو بے نقاب کرتے ہوئے پکڑ لیا ہے۔ یہ گروہ جعلی کاغذات تیار کر کے ضرورت مند افراد کے لیے انتہائی مفلس افراد کو ترغیب دے کر گردے حاصل کرنے کا کاروبار جاری رکھے ہوئے تھا۔ ایسے اندازے لگائے گئے ہیں کہ گردے خریدنے والوں کا تعلق متمول خاندانوں سے ہوتا ہے۔ ضرورت مند امیر خاندانوں کے افراد مڈل مین کے ذریعے گردے خریدنے کا سلسلہ آج بھی جاری رکھے ہوئے ہیں۔
دہلی پولیس کے ایک سینیئر اہلکار ایم ایس رندھاوا کے مطابق پانچ مشتبہ افراد کو گرفتار کیا گیا ہے۔ ان میں سے دو نئی دہلی کے اپالو ہسپتال میں گردوں کی پیوند کاری کرنے والے ایک سینیئر ڈاکٹر کے دفتری اسٹاف کے رکن بتائے گئے ہیں جب کہ تین اِس دھندے میں مڈل مین تھے۔ پولیس کو ابتدائی کارروائی میں اپالو ہسپتال کے کسی سرجن کے ملوث ہونے کا سراغ دستیاب نہیں ہو سکا ہے۔
یہ امر اہم ہے کہ بھارت میں انسانی اعضاء کی خرید و فروخت قانوناً ممنوع ہے۔ اس عطیے کے لیے مریض کا رشتہ دار ہونا ضروری ہے یا پھر کوئی عضو عطیہ دینے والا حلفاً اور تحریرً واضح کرے کہ وہ صلہٴ رحمی کے تحت یہ کام کرنے جا رہا ہے۔
ہسپتال کی انتظامیہ نے اِس پولیس کارروائی کے حوالے سے بتایا ہے کہ وہ اِس دھندے یا ایسا کرنے والے گروہ کے بارے میں کوئی معلومات نہیں رکھتے اور گرفتار کیا گیا کوئی بھی شخص ہسپتال کا ملازم نہیں ہے۔ اپالو ہسپتال کی جانب سے جاری ہونے والے بیان میں کہا گیا کہ اعضاء کی ٹرانسپلانٹ کرتے وقت تمام قانونی پہلووں کا مکمل طور پر جائزہ لینے کے بعد یہ عمل کیا جاتا ہے۔ اِس بیان میں مزید کہا گیا کہ ایک انتہائی منظم طریقہٴ کار کے ذریعے ہسپتال کو بدنام کرنے کی سازش کے ساتھ مریضوں سے دھوکا دہی کی واردات کی گئی ہے۔
غیرقانونی انداز میں گردے فروخت کرنے والے نیٹ ورک کی عملی سرگرمیوں کے حوالے سے پولیس نے واضح کیا کہ مڈل مین ضرورت مند افراد کی تفصیل کے ساتھ بھارت کی زیادہ اور قدرے غریب آبادی والی ریاستوں اتر پردیش اور مغربی بنگال کے مفلس اور غریب آبادی کے افراد کو راغب کر کے نئی دہلی لا کر گردے کو غیر قانونی طریقے سے نکال کر فروخت کرتے تھے۔ یہ گروہ غیرقانونی طریقے سے ووٹر کارڈ اور شادی کے سرٹیفکیٹ بھی آپریشن کے وقت مہیا کرتا تھا۔ پولیس افسر رندھاوا کے مطابق یہ گروہ گزشتہ کچھ عرصے سے فعال تھا۔ رندھاوا نے مزید گرفتاریوں کا خدشہ ظاہر کیا ہے۔