دہلی کا نکلسن قبرستان، پُرآشوب بھارتی ماضی کی کہانی
14 فروری 2014یہ قبرستان نئی دہلی کی بہت زیادہ ٹریفک کے شور والی ایک شاہراہ کے کنارے واقع ہے اور ایک چھوٹی سی جگہ ہے جس کے ارد گرد ایک چار دیواری ہے۔ وہاں ایسے برطانوی شہریوں اور دیگر غیر ملکی باشندوں کی قبریں ہیں، جن میں فوجی، مشنری، تاجر اور حکومتی اہلکار بھی شامل تھے۔
ان افراد نے برطانوی نو آبادیاتی دور کی بھارتی تاریخ میں اپنا اپنا اچھا یا برا کردار ادا کیا تھا۔ آج ان کی واحد پہچان ان کی قبروں پر لگے وہ پرانے کتبے ہیں جو اپنی ٹوٹی پھوٹی حالت میں یہ پتہ دیتے ہیں کہ ان قبروں میں کون کون دفن ہے۔
بھارتی دارالحکومت میں کشمیر گیٹ کے قریب آج اس قبرستان کی ہوا تو پر سکون ہے لیکن وہ اس بات کی گواہ ہے کہ بھارتی ریاست نے اپنے ماضی میں کتنی خونریزی دیکھی ہے۔ یہ قبرستان 1857ء کی اس جنگ آزادی کے بعد قائم کیا گیا تھا جسے برطانوی تاریخ میں ‘بھارتی غدر‘ یا بغاوت کا نام دیا جاتا ہے۔ وہاں دفن شخصیات میں سے کئی ایسی ہیں، جو قریب 160 سال قبل کی اس جنگ میں ماری گئی تھیں، جسے اب بھارتی تاریخ دان اس ملک کی پہلی جنگ آزادی قرار دیتے ہیں۔
اس قبرستان کا نام برطانوی بریگیڈیئر جنرل جان نکلسن کے نام پر رکھا گیا ہے، جو چھتیس برس کی عمر میں ایک حملے میں شدید زخمی ہونے کے بعد انتقال کر گیا تھا۔ تب بھارت میں برطانوی موجودگی کے دور میں جان نکلسن پر یہی جان لیوا حملہ دہلی کے محاصرے کی وجہ بنا تھا۔
جان نکلسن کی شخصیت اپنی زندگی میں اور اپنی موت کے بعد بھی متنازعہ کردار کی حامل رہی۔ نکلسن دہلی میں اپنی موت سے قبل افغانستان اور پنجاب میں جنگیں لڑ چکا تھا۔ اسے اس کے ماتحت فوجی اور ساتھی افسران ناپسند کرتے تھے اور وہ خود بھی افغانوں اور بھارتی باشندوں سے نفرت کرتا تھا۔ کہا جاتا ہے کہ ایک مرتبہ نکلسن نے اپنے ایک مخالف کا کٹا ہوا سر اپنی میز پر رکھ کر اپنے ایک ساتھی افسر سے کہا تھا، ’’برطانوی خواتین اور بچوں کے قاتلوں کو زندہ حالت میں ٹکرے ٹکرے کر دینا چاہیے یا انہیں جلا دینا چاہیے۔ ایسے جرائم کے مرتکب افراد کو صرف پھانسی پر لٹکانا تو محض پاگل پن ہو گا۔‘‘
William Dalrymple نامی مؤرخ نے اپنی کتاب ’دا لاسٹ مغل‘ میں جان نکلسن کو ایک ’امپیریل جنونی‘ قرار دیا ہے، جو ‘بہت بے رحمی کے ساتھ انتہائی نوعیت کی جارحیت اور بربریت کی صلاحیت‘ رکھتا تھا۔
آج نئی دہلی میں اس برطانوی فوجی افسر کی قبر پر سنگ مرمر کا ایک کتبہ بھی لگا ہوا ہے اور بھارتی محکمے آرکیالوجیکل سروے آف انڈیا نے اس کی قبر کو ایک ’قومی یادگار‘ بھی قرار دے رکھا ہے۔
نکلسن قبرستان اپنے اندر ایسی اور بھی کئی کہانیاں لیے ہوئے ہے۔ وہاں کئی برطانوی سویلین باشندوں کی قبریں بھی ہیں۔ نئی دیلی کے سیکرڈ ہارٹ کیتھیڈرل کے فادر Rebello کہتے ہیں کہ ان کا مسئلہ ماضی نہیں بلکہ زمانہء حال ہے۔ اس قبرستان میں اب کسی کو دفنانے کی کوئی جگہ نہیں رہی اور مسیحی باشندوں کی یہ ابدی آرام گاہ اب بند کی جا چکی ہے۔
کبھی کبھی کسی قبر میں کسی نئی لاش کو دفنانے کی اجازت دے دی جاتی ہے۔ لیکن صرف اس صورت میں کہ جب وہاں دفن شخصیت کی راکھ کی صورت میں جسمانی باقیات کو مرنے والے کے لواحقین کسی دوسری جگہ منتقل کرنے پر تیار ہو جائیں۔
نئی دہلی میں مجموعی طور پر مسیحی باشندوں کے کُل گیارہ قدیم قبرستان موجود ہیں۔ ان میں سے پانچ میں کسی نئی قبر کے لیے کوئی جگہ باقی نہیں بچی۔ حکومت نے ایک نئے کرسچن قبرستان کے لیے زمین کی منظوری دی تھی لیکن اب وہاں بھی خالی جگہ کم پڑتی جا رہی ہے۔