بھارتی دارالحکومت دہلی میں ایک کمرشل عمارت میں آتش زدگی کے واقعے میں کم از کم 27 افراد ہلاک اور متعدد دیگر زخمی ہو گئے۔ حکام کے مطابق عمارت میں آگ سے بچاؤ کے لیے سیفٹی آلات نصب نہیں تھے۔
اشتہار
بھارت میں ایمرجنسی سروسز کے حکام کے مطابق دارالحکومت دہلی میں جمعے کی رات کو ایک چار منزلہ تجارتی عمارت میں آگ لگنے سے کم از کم 27 افراد ہلاک اور متعدد دیگر زخمی ہو گئے۔
مقامی میڈیا نے پولیس حکام کے حوالے سے اطلاع دی ہے کہ عمارت میں پھنسے 60 سے 70 افراد کو بچا لیا گیا، تاہم ایسا لگتا ہے کہ بعض افراد اب بھی اس میں پھنسے ہوئے ہو سکتے ہیں، جن کی تلاش جاری ہے۔ یہ واقعہ نئی دہلی کے مغربی علاقے منڈکا میں پیش آیا۔
بہت سے افراد کو جان بچانے کے لیے عمارت کی تیسری اور چوتھی منزل سے چھلانگ لگاتے ہوئے بھی دیکھا گیا، جبکہ بعض نے رسیوں کی مدد سے نیچے اتر کر کسی طرح اپنی جان بچائی۔
مقامی نشریاتی ادارے 'این ڈی ٹی وی' کے مطابق آگ اتنی بھیانک تھی کہ اس میں 40 سے زیادہ لوگ بری طرح سے جھلس گئے، جنہیں فوری طور سے ہسپتال میں داخل کرایا دیا گیا ہے۔ زخمی ہونے والے متعدد افراد کی حالات نازک بتائی جا رہی ہے، جس سے ہلاکتوں کی تعداد میں اضافے کا خدشہ ہے۔
آگ اتنی شدید تھی کہ کم از کم 20 فائر انجن کئی گھنٹوں کی کاوشوں کے بعد اس پر قابو پا سکے۔ فائر ڈپارٹمنٹ کے اہلکاروں کا کہنا ہے کہ ممکنہ طور پر ملبے میں پھنسے افراد کی تلاش کا کام اب بھی جاری ہے۔
متاثرہ عمارت کو فائر سیفٹی کی کلیئرنس نہیں تھی
ایک سینیئر پولیس اہلکار نے مقامی میڈیا سے بات چیت میں کہا کہ آگ عمارت کی پہلی منزل سے شروع ہوئی، جس میں سکیورٹی کیمرے اور روٹر بنانے والی ایک کمپنی کا بھی دفتر تھا اور پھر بہت تیزی سے وہ اوپر کی جانب پھیل گئی۔
آگ لگنے کی وجوہات کی تفصیلات فوری طور پر دستیاب نہیں ہو سکیں، تاہم حکام نے اس سلسلے میں دو افراد کو گرفتار کر لیا ہے، جو کمپنی کے مالک بتائے جا رہے ہیں۔ عمارت کے مالک کا ابھی تک کوئی پتہ نہیں، اور پولیس کے مطابق ان کی تلاش جاری ہے۔
خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس کی اطلاعات کے مطابق دہلی فائر سروسز کے ڈائریکٹر اتل گرگ نے بتایا،’’آگ پر قابو پانے والے محکمے کی جانب سے اس عمارت کو منظوری نہیں دی گئی تھی اور یہ عمارت آگ بجھانے والے آلات سے بھی لیس نہیں تھی۔‘‘
بھارتی صدر رام ناتھ کووند اور وزیر اعظم نریندر مودی سمیت متعدد سیاسی رہنماؤں نے اس حادثے میں ہلاک ہونے والوں کو تعزیت پیش کی اور ہمدردی کا اظہار کیا۔
بھارت میں اس طرح کے آگ لگنے کے واقعات ایک عام بات ہے جہاں عمارت تعمیر کرنے والے اور رہائشیوں کی جانب سے، عمارت بنانے سے متعلق قوانین اور حفاظتی اصولوں کو، اکثر نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔ سن 2019 میں بھی دہلی کی ایک عمارت میں شارٹ سرکٹ کی وجہ سے آگ لگ گئی تھی، جس میں 43 افراد ہلاک ہو گئے تھے۔
ص ز/ ک م (اے پی، اے ایف پی)
روہنگیا بھارت میں بھی چین سے جینے سے محروم ہیں
بھارتی دارالحکومت دہلی میں مقیم روہنگیا پناہ گزينوں کا کہنا ہے کہ اتوار کی شام بعض افراد نے کیمپ نہ خالی کرنے پر جان سے مارنے کی دھمکی دی۔ پھر رات کو اچانک آگ لگنے سے ان کا کیمپ جل کر خاک ہو گيا۔
تصویر: Badar Ali
چھت سے پھر محروم
بھارتی دارالحکومت نئی دہلی کے جنوب مشرقی علاقے مدن پور کھادر میں روہنگیاہ پناہ گزینوں کا یہ کیمپ اتوار کی شب آگ لگنے سے جل کر خاک ہو گیا۔ یہاں کی جھونپڑیوں میں 53 روہنگيا خاندان آباد تھے اور آگ لگنے کی وجہ سے ڈھائی سے سو زیادہ پناہ گزین اب بغیر چھت کے ہیں۔
تصویر: Badar Ali
سب برباد ہو گیا
روہنگیا پناہ گزین کے مطابق اب متاثرہ افراد عارضی طور پر ذکوۃ فاؤنڈیشن کے ایک پلاٹ میں مقیم ہیں،’’اب ہمارے پاس نہ تو کچھ کھانے کو بچا ہے نہ ہی کپڑے اور پیسے ہیں۔ ہم اب دوسروں کی امداد کے منتظر رہتے ہیں۔‘‘
تصویر: Badar Ali
سرکاری اراضی
جس مقام پر یہ روہنگیا پناہ گزین آباد تھے وہ دلی کا مضافاتی علاقہ ہے اور وہ سرکاری جگہ بتائی جا رہی ہے۔ بعض مقامی سیاسی شخصیات اور سماجی کارکنان نے آگ لگنے کے اس واقعے کو سازش قرار دیا ہے۔ ان کے مطابق اگر یہ سازش نہیں ہے تو پھر دوبارہ انہیں وہاں جھگی بنانے کی اجازت کیوں نہیں دی جا رہی ہے۔
تصویر: Badar Ali
رات کی تاریکی میں آگ
اس کیمپ کے متاثرہ افراد پہلے یہاں سے نصف کلومیٹر کے فاصلے پر مقیم تھے۔ چند برس قبل اس کیمپ میں بھی رات کی خاموشی میں اسی طرح آگ لگی تھی اور سب کچھ جل کر خاک ہو گیا تھا۔ اس کے بعد پناہ گزينوں نے اس مقام پر جھگیاں تعمیر کیں جو اب پھر آگ کی نذر ہو گئی ہیں۔
تصویر: Badar Ali
جان سے مارنے کی دھمکی
روہنگیا پناہ گزین کے مطابق، عشاء کے وقت چند لوگ وہاں آئے اور روہنگیا پناہ گزینوں کو دھمکی دی اور کہا،’’ اگر تم لوگ اس جگہ کو خالی نہیں کرتے تو تمہاری جان کو خطرہ لاحق ہے۔ اس دھمکی کے تقریباً تین گھنٹوں کے بعد اسے جلا دیا گيا۔"
تصویر: Badar Ali
سازش کا الزام
اسی متاثرہ کیمپ کے پاس بسنے والے ایک اور روہنگيا کارکن کا کہنا ہے یہ آگ ایک سازش کا نتیجہ ہے۔ ڈی ڈبلیو سے خاص بات چیت میں انہوں نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بتایا کہ جس نے بھی یہ کیا ہے وہ طاقت ور لوگ ہیں اور اگر ان کے پیچھے اقتدار کی طاقت نہیں ہے تو وہ اس طرح کھلے عام دھمکی کیسے دے سکتے ہیں۔
تصویر: Badar Ali
خوف و ہراس
گزشتہ چند مہینوں کے دوران بھارت کے متعدد علاقوں میں رہنے والے روہنگیا مسلمانوں کو پکڑ کر انہیں حراستی مراکز میں منتقل کرنے کے واقعات میں بھی اضافہ ہوا ہے، جس سے روہنگیا برادری میں زبردست خوف و ہراس کا ماحول ہے۔
تصویر: Badar Ali
زندگی اجیرن
شناختی دستاویزات نہ ہونے والے بیشتر پناہ گزينوں کو حراستی مراکز یا جیلوں میں رکھا گيا ہے۔ حراست میں لیے جانے والے ایسے یشتر افراد کے چھوٹے چھوٹے بچے اور بیویاں ہیں، جن کی زندگی اب اجیرن ہو کر رہ گئی ہے۔
تصویر: Badar Ali
ہولڈنگ سینٹر
کچھ دن پہلے پولیس نے دہلی اور جموں و کشمیر میں رہنے والے ایسے پناہ گزینوں کو یہ کہہ کر حراست میں لینے کا سلسلہ شروع کیا تھا کہ ان کے پاس مناسب دستاویزات نہیں ہیں۔ جموں میں حکام کا کہنا ہے کہ انہوں نے ایسے 155 روہنگیا مسلمانوں کو ہولڈنگ سینٹر میں بھیجا ہے، جن کے پاس نہ تو پاسپورٹ ہیں اور نہ ہی یو این ایچ سی آر کی جانب سے جاری کیا جانے والا کوئی شناختی کارڈ۔
تصویر: Badar Ali
آخر روہنگیا کی جھگیاں ہی کیوں؟
روہنگیا پناہ گزین نے ڈی ڈبلیو اردو کو مزید بتایا کہ اس پورے علاقے میں ایسی مزید کئی کچی بستیاں یا جھگیاں ہیں، جن میں بہت سے مقامی لوگ رہتے ہیں،’’تاہم آگ ہمیشہ ہم پناہ گزینوں کی جھگیوں میں ہی لگتی ہے۔ ایسا کیوں ہے؟ یہ پناہ گزینوں کو بھگانے کی ایک سازش ہے۔‘‘
تصویر: Badar Ali
چودہ ہزار کے لگ بھگ روہنگیا
حکومت کے اعداد و شمار کے مطابق جموں اور سانبہ کے علاقے میں تقریباﹰ پونے چودہ ہزار روہنگیا مسلمان اور بنگلہ دیش سے آنے والے افراد رہتے ہیں۔ بھارتی حکومت نے پارلیمان میں ان کے ڈیٹا سے متعلق اپنے ایک بیان میں کہا تھا کہ ملک بھر میں ان کی تعداد تقریبا چالیس ہزار ہے۔