دیر اور بونیر میں فوجی آپریشن کا فیصلہ گزشتہ جمعے کو ہوا
28 اپریل 2009فوج کے سربراہ جنرل اشفاق کیانی کی سربراہی میں منعقدہ اس کانفرنس میں متعلقہ کمانڈروں کو بتایا گیا کہ طالبان عسکریت پسند سوات کے اطراف کے علاقوں میں بشمول بونیر اور شانگلہ میں نظام عدل ریگولیشن کو بہانہ بنا کر اپنی سرگرمیاں بڑھا رہے ہیں اور صوبائی حکومت کی درخواست پر مالا کنڈ کے ان علاقوں میں آپریشن کا فیصلہ کیا گیا ہے جہاں عسکریت پسندوں اور جرائم پیشہ گروہوں کی کارروائیوں کے باعث بتدریج خراب ہو رہے ہیں ۔
فوج کے ترجمان میجر جنرل اطہر عباس نے آپریشن کا پس منظر بتاتے ہوئے کہا: ”بونیر سے نوجوان لڑکوں کو زبردستی بھرتی کرنا اور سوات میں عسکری تربیت کے لئے لے جانا مسلح گروہوں کا گشت عوام میں خوف و ہراس کا پیدا کرنا ، لوگوں کی گاڑیوں سے کیسٹ ریکارڈر نکالنا ،ان کو توڑنا اور ان کو بے عزت کرنا ، بونیر کے عوام خوف و ہراس کی فضاءمیں سانس لے رہے تھے ، اس آپریشن میں فرنٹیئر کور اور فوج کے دستے حصہ لے رہے ہیں۔ آپریشن کے اہداف میں بونیر سے عسکریت پسندوں کا خاتمہ اور مکمل انخلاء ہے ۔“جنرل اطہر عباس کا دعویٰ تھا کہ دیر علاقے کو شرپسندوں سے خالی کرا لیا گیا ہے اور یہ کہ بونیر میں ایسے گروہوں کے خاتمے کے بعد یہاں مستقل فوجی اور نیم فوجی چوکیاں بھی قائم کی جائیں گی۔
دوسری طرف تحریک نفاذ شریعت محمدی نے حکومت پر سوات معاہدے کی خلاف ورزی کا الزام لگایا ہے تاہم گزشتہ چند ہفتوں کے واقعات سے ظاہر ہو رہا تھا کہ دراصل طالبان معاہدے کی خلاف ورزی کے مرتکب ہو رہے تھے جس کے باعث مولانا صوفی محمد بھی طالبان عسکریت پسندوں کے سامنے بے بس نظر آ رہے تھے۔ مبصرین کے مطابق اگرچہ فوجی قیادت عسکریت پسندوں کے قلع قمع کے متعلق کافی پرامید نظر آتی ہے تاہم قبائلی علاقوں کے تجربے اور اس علاقے کی جغرافیائی صورتحال کے پیش نظر جلد کامیابی شاید آسان نہ ہو۔