ترکی، روس اور ایران نے کہا ہے کہ وہ شام میں ’دیرپا جنگ بندی‘ کی خاطر کوششوں کا سلسلہ جاری رکھیں گے۔ ان تینوں ممالک کے صدور نے بدھ کو انقرہ میں ایک سہ فریقی سمٹ میں شام کے حالات پر تفیصلی گفتگو کے بعد یہ بیان جاری کیا۔
اشتہار
خبر رساں ادارے اے ایف پی نے ترک حکومت کے حوالے سے بتایا ہے کہ بدھ کے دن انقرہ میں سہ فریقی سمٹ میں ترک، روسی اور ایرانی صدور نے شام میں قیام امن کے لیے کوششیں جاری رکھنے کا عزم ظاہر کیا۔ ترک صدر رجب طیب ایردوآن کی سربراہی میں منعقدہ اس سمٹ میں ایرانی اور روسی صدور نے کہا کہ اس مقصد کے لیے تعاون کا سلسلہ جاری رہے گا۔
اس سمٹ کے مشترکہ اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ روسی صدر ولادیمیر پوٹن، ایرانی صدر حسن روحانی اور ترک صدر رجب طیب ایردوآن ’شامی تنازعے کے فریقین کے مابین دیرپا جنگ بندی‘ کی خاطر کوششوں کو زیادہ ٹھوس بنائیں گے۔
واضح رہے کہ ایران اور روس اس تنازعے میں شامی صدر بشار الاسد کے حامی ہیں جبکہ انقرہ حکومت شامی باغیوں کے ساتھ ہے۔ تاہم ان اختلافات کے باوجود یہ تینوں ممالک شام میں جنگ بندی اور قیام امن کی خاطر کوششیں کر رہے ہیں۔
یہ تینوں ممالک شامی خانہ جنگی کا سیاسی حل تلاش کرنے کی کوشش میں ہیں۔ گزشتہ برس ستائیس نومبر کو روسی شہر سوچی میں ان تینوں ممالک کے رہنماؤں کی ایک سمٹ کا اہتمام بھی کیا تھا جبکہ بدھ کے دن انقرہ میں ترک صدر کے دفتر میں یہ ملاقات شام میں قیام امن کی خاطر ایک اور کوشش قرار دی جا رہی ہے۔
اس سمٹ میں تینوں رہنماؤں نے اتفاق کیا کہ شام میں قیام امن کی خاطر آستانہ مذاکرات اور یہ سمٹ اس شورش زدہ ملک میں تشدد میں کمی کا باعث بنی ہیں۔ اہم بات یہ ہے کہ شام میں قیام امن کی خاطر اقوام متحدہ کی ثالثی میں جنیوا میں بھی ایک علیحدہ مذاکراتی عمل جاری ہے۔
انقرہ سمٹ کے بعد ترک صدر ایردوآن نے صحافیوں سے گفتگو میں کہا کہ سب سے اہم بات یہ ہے کہ ان مذاکراتی ادوار کے نتائج برآمد ہونا چاہییں، ’’نتائج ضرور برآمد ہونا چاہییں۔ مزید تاخیر ناقابل برداشت ہے۔ وہاں لوگ مر رہے ہیں۔‘‘
مارچ سن دو ہزار گیارہ سے شروع ہونے والے شامی بحران کے نتیجے میں اب تک کم از کم ساڑھے تین لاکھ افراد ہلاک جبکہ لاکھوں بے گھر ہو چکے ہیں۔
ع ب / م م / اے ایف پی
’شام کی وہ دوزخ، جس کا ایندھن بچے ہیں‘
شامی صدر بشار الاسد کی حامی افواج، باغیوں کے زیر کنٹرول علاقے مشرقی غوطہ پر بمباری کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں۔ اس علاقے میں چار لاکھ سے زائد شہری محصور ہیں اور تقریبا ساڑھے پانچ سو افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔
تصویر: picture alliance/AA/Syrian Civil Defence
مشرقی غوطہ میں طبی امداد فراہم کرنے والی تنظیم سیرئین سول ڈیفنس نے الزام عائد کرتے ہوئے کہا ہے کہ صدر اسد کی حامی فورسز نے بمباری کے دوران کلورین گیس کا استعمال کیا ہے، جس کی وجہ سے وہاں بچے ہلاک ہو رہے ہیں اور متاثرہ افراد کو سانس لینے مین دشواری کا سامنا ہے۔
تصویر: Reuters/B. Khabieh
آزاد ذرائع سے کلورین گیس کے استعمال کی فی الحال تصدیق نہیں ہو سکی ہے۔ روس نے اس الزام کو مسترد کیا ہے کہ اس کی حمایت یافتہ فورسز یہ زیریلی گیس استعمال کر رہی ہیں۔
تصویر: picture alliance/AA/Syrian Civil Defence
اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انٹونیو گوٹریش نے جنگ بندی پر فوری عمل درآمد کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ زمین پر قائم اس ’جہنم کو فوری طور پر بند ہونا چاہیے‘۔
تصویر: picture alliance/AA/Q. Nour
زیر محاصرہ شامی علاقے مشرقی غوطہ میں شدید فضائی حملوں کے بعد وہاں پھنسے عام شہری امداد اور طبی مدد کے منتظر ہیں۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی جانب سے فائربندی کے مطالبے کے باوجود علاقے میں جھڑپوں کا سلسلہ جاری ہے۔
تصویر: Reuters/B. Khabieh
گزشتہ ایک ہفتے میں شامی صدر بشارالاسد کی حامی فورسز کی جانب سے مشرقی غوطہ پر کی جانے والی شدید بمباری کے نتیجے میں اب تک پانچ سو سے زائد افراد ہلاک ہوئے ہیں۔ ہفتے کے روز سلامتی کونسل نے شام میں 30 روزہ فائربندی کا مطالبہ کیا تھا اور کہا تھا کہ فائربندی پر عمل درآمد ’بلاتاخیر‘ کیا جائے۔
تصویر: Reuters/B. Khabieh
سیریئن آبزرویٹری کے مطابق سلامتی کونسل کی قرارداد کے باوجود روسی طیاروں نے ہفتے کے ہی روز مشرقی غوطہ پر بمباری کا سلسلہ جاری رکھا۔ آبزرویٹری نے مزید بتایا کہ ہلاک شدگان میں 127 بچے بھی شامل ہیں۔
تصویر: picture alliance/abaca/A. Al Bushy
شامی خانہ جنگی سے متعلق صلاح و مشورے کے لیے آج پیر کے روز یورپی یونین کے وزرائے خارجہ کا ایک اہم اجلاس طلب کر لیا گیا ہے۔ وزرائے خارجہ یہ طے کریں گے کہ کس طرح مشرقی غوطہ میں ظلم و تشدد کے شکار شہریوں کی بہتر طریقے سے مدد کی جا سکتی ہے۔
تصویر: Reuters/B.Khabieh
سلامتی کونسل کی قرارداد میں تیس روزہ فائر بندی کی بات کی گئی ہے۔ اس دوران امدادی سامان کی ترسیل اور شدید زخمیوں کو متاثرہ علاقوں سے باہر نکالا جائے گا۔ اس قرارداد میں شامی باغیوں کے گڑھ مشرقی غوطہ کا محاصرہ ختم کرنے کا مطالبہ بھی کیا گیا ہے۔
تصویر: picture alliance/abaca/A. Al Bushy
مشرقی غوطہ دو مسلم گروپوں میں منقسم ہے اور وہاں شام میں القاعدہ کی مقامی شاخ بھی سرگرم ہے۔ روس نے باغیوں کے ساتھ بات چیت کی پیشکش کی تھی تاکہ وہاں موجود باغی اپنے اہل خانہ کے ساتھ شہر سے باہر نکل جائیں، بالکل اسی طرح جیسا 2016ء میں حلب میں بھی دیکھنے میں آیا تھا۔ تاہم غوطہ میں تمام باغی تنظیموں نے اس روسی پیشکش کو مسترد کر دیا تھا۔
تصویر: picture alliance/AA/A. Al-Bushy
جرمن چانسلر انگیلا میرکل اور فرانسیسی صدر امانویل ماکروں نے اتوار کو روسی صدر ولادیمیر پوٹن سے ٹیلی فون پر بات کی۔ ان رہنماؤں نے پوٹن سے اپیل کی کہ وہ شامی حکومت پر اپنا اثرورسوخ استعمال کرتے ہوئے فائربندی پر عمل درآمد یقینی بنائیں۔
تصویر: picture alliance/abaca/A. Al-Bushy
اقوام متحدہ کے ذرائع کے مطابق ان حملوں کے دوران اس علاقے میں کم از کم پانچ ہسپتالوں پر بھی بمباری کی گئی۔ ان حملوں کے بعد کئی ہسپتال معمول کے مطابق کام کرنے کے قابل نہ رہے۔
تصویر: picture alliance/AA/K. Akasha
ان حملوں کے حوالے سے شامی حکومتی افواج کی جانب سے کوئی بیان سامنے نہیں آیا لیکن اسد حکومت اکثر یہی کہتی ہے کہ سرکاری افواج کی طرف سے صرف باغیوں اور جنگجوؤں کو نشانہ بنایا جاتا ہے۔
تصویر: picture alliance/AP/Syrian Civil Defense White Helmets
اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے مستقل رکن ملک فرانس نے شام میں ان تازہ حملوں کی شدید مذمت کرتے ہوئے انہیں بین الاقوامی قوانین کی سنگین خلاف ورزی قرار دیا ہے۔