دینا واڈیہ کے انتقال پر پاکستان اور بھارت میں کئی اہم شخصیات کی جانب سے افسوس اور دکھ کا اظہار کیا جا رہا ہے۔ کچھ مبصرین کی رائے میں واڈیہ کے انتقال سے تاریخ کا ایک اہم باب بند ہو گیا ہے۔
اشتہار
پاکستان کے بانی محمد علی جناح کی بیٹی دینا واڈیہ جمعرات کےد ن 98 سال کی عمر میں نیویارک میں انتقال کر گئی ہیں۔ واڈیہ محمد علی جناح اور ان کی اہلیہ رتن بائی کی اکلوتی اولاد تھیں۔ قیام پاکستان کے بعد محمد علی جناح پاکستان منتقل ہو گئے تھے۔ ان کی بیٹی نے ایک اہم پارسی خاندان سے تعلق رکھنے والے تاجر سے شادی کر لی تھی اور بھارت رہنے کا فیصلہ کیا تھا۔ سن 1948 میں بانی پاکستان کے انتقال کے موقع پر ان کی بیٹی اپنے والد کی تدفین پر پاکستان آئی تھیں۔
دینا واڈیہ 15 اگست 1919 کو پیدا ہوئی تھیں۔ انہوں نے آخری مرتبہ سن 2004 میں پاکستان کا دورہ کیا تھا۔ اس دورے کے دوران وہ کراچی میں ’مزار قائد‘ بھی گئی تھیں۔ اور میڈیا رپورٹس کے مطابق انہوں نے اس موقع پر وزٹرز بک میں لکھا تھا کہ وہ دعا گو ہیں کہ ان کے والد کا پاکستان کے لیے دیکھا گیا خواب پورا ہو۔ ان کے انتقال کی خبر کے بعد پاکستان میں ٹوئٹر پر دینا واڈیہ کا نام ٹرینڈ کر رہا ہے۔
پاکستان پیپلز پارٹی کی رہنما شیری رحمان نے اپنے ٹوئٹر اکاؤنٹ پر لکھا،’’ جناح کی غیر معمولی زندگی سے اب ہمارے لیے بہت کم ہی بچا ہے۔‘‘
پاکستانی صوبے پنجاب کے وزیر اعلیٰ شہباز شریف، پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان اور پاکستان کی دیگر اہم اور سماجی شخصیات نے بھی دینا واڈیہ کے انتقال پر افسوس کا اظہار کیا۔
ریڈیو پاکستان کے ٹوئٹر اکاؤنٹ پر سن 2004 میں دینا واڈیہ کے دورہء پاکستان کی تصاویر شائع کی گئیں۔
تقسیم ہند کے ستر برس، ایک نظر ’خونی پارٹیشن‘ پر
برطانوی راج کے خلاف لگ بھگ تیس سال تک جاری رہنے والی جدوجہد کے بعد متحدہ ہندوستان نے سن 1947 میں انگریزوں کے تسلط سے آزادی حاصل کر لی تھی۔ آزادی کی یہ خوشی تاہم تقسیم کی تباہ کاریوں کے سامنے ماند پڑ گئی تھی۔
تصویر: Imago
دو الگ ریاستوں کا قیام
برطانیہ سے آزادی کی جدوجہد بھارت اور پاکستان دو الگ ریاستوں کے قیام پر منتج ہوئی۔ تاریخ بتاتی ہے کہ سرحدوں کے تعین جیسے اہم فیصلے جلد بازی میں کیے گئے۔ جہاں دنیا نے تاریخ کی سب سے بڑی نقل مکانی ہوتے دیکھی وہیں بڑے پیمانے پر قتل و غارت کے مناظر بھی ذہنوں میں نقش ہو گئے۔ متحدہ ہندوستان کی فوج، انتظامیہ اور دیگر ادارے پاکستان کے قیام کے ساتھ دونوں ممالک کے درمیان بانٹ دیے گئے تھے۔
تصویر: AP
بڑے پیمانے پر ہجرت
جہاں ایک طرف لاکھوں مسلمانوں نے پاکستان کا رخ کیا تو دوسری جانب بڑی تعداد میں ہندوؤں اور سکھوں نے بھارت جانے کا فیصلہ کیا۔ کئی خاندان اپنے آبائی گھر، جائیداد اور قیمتی ساز وسامان چھوڑنے پر مجبور ہو گئے تھے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/S. Shahzad
کئی حصے اب بھی متنازعہ
پاکستان اور بھارت کی سرحد 2897 کلو میٹر طویل ہے۔ اس کے کئی حصے اب بھی متنازعہ ہیں۔ 1947 میں سرحدوں کا تعاین مذہب کی بنیاد پر کیا گیا تھا۔ ہندو اکثریتی علاقوں کو بھارت اور مسلمان اکثریتی علاقوں کو پاکستان میں شامل کیا گیا تھا۔
تصویر: AP
پاکستان اور بھارت کے قیام کے ستر برس
پاکستان اور بھارت کے قیام کو ستر برس ہو گئے ہیں۔ پاکستان، مغربی اور مشرقی پاکستان دو حصوں پر مشتمل تھا۔ تاریخ دانوں کے مطابق مشرقی پاکستان نے بھارت کی مدد سے سن 1971 میں ایک الگ ریاست قائم کر لی۔ اب بنگلہ دیش ایک آزاد اور خود مختار ریاست ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
متحدہ بھارت کی آبادی
سن 1947 میں متحدہ بھارت کی کل آبادی میں 43 ملین مسلمان اور 239 ملین ہندو تھے۔ اس کے علاوہ عیسائی اور دیگر مذاہب کے لوگ بھی یہاں بستے تھے۔
تصویر: AP
مسلم لیگ کا ایک الگ ریاست کا مطالبہ
سیاسی جماعت مسلم لیگ کے قیام کا مقصد متحدہ ہندوستان میں مسلمانوں کا تحفظ یقینی بنانا تھا۔ بھارتی نیشنل کانگریس پارٹی کے ساتھ مسلم لیگ کے اختلافات بڑھتے گئے اور مسلم لیگ نے ایک الگ ریاست کا مطالبہ کر دیا۔
تصویر: Imago
سینکڑوں افراد کشیدگی میں مارے گئے
ایک اندازے کے مطابق تقسیم ہند کے بعد 10 سے 12 لاکھ افراد ہجرت پر مجبور ہوئے تھے۔ 17 اگست 1947 کو نئی سرحد کے اعلان کے بعد سینکڑوں مسلمان، ہندو اور سکھ ایک دوسرے کے ساتھ کشیدگی میں مارے گئے تھے۔ لگ بھگ پانچ لاکھ افراد اس خونی تقسیم میں اپنی جانیں کھو بیٹھے تھے۔ تقسیمِ ہند کی شورش میں قریب 75 ہزار سے ایک لاکھ تک خواتین اغوا ہوئیں جنھیں یا تو قتل کر دیا گیا اور یا پھر اُن کا ریپ ہوا۔
تصویر: AP
کشمیر پر تنازعہ اب تک جاری
پاکستان اور بھارت کے قیام کے بعد سے دونوں ممالک اب تک تین جنگیں لڑ چکے ہیں۔ کشمیر اب تک ایک متنازعہ علاقہ ہے۔ پاکستان کی رائے میں بھارت کے زیر انتظام کشمیر کو پاکستان کا حصہ ہونا چاہیے تھا۔ برطانوی راج کے خاتمے کے وقت کشمیر ایک نوابی ریاست تھی۔ آج بھارت اور پاکستان دونوں اس کشمیر کو اپنا حصہ مانتے ہیں اور یہ تنازعہ اب تک جاری ہے۔