دیوارِ برلن کے انہدام کے تیس برس، جرمنی میں تقریبات
9 نومبر 2019
جرمنی میں دیوارِ برلن کے انہدام کی تیسویں سال گرہ منائی جا رہی ہے۔ تیس برس برلن کو دو حصوں میں تقسیم کرنے والی اس دیوار کے انہدام نے ایک نئی تاریخ رقم کر دی تھی اور مشرقی اور مغربی جرمنی کا انضمام ممکن ہوا تھا۔
تصویر: Reuters/F. Bensch
اشتہار
جرمن چانسلر انگیلا میرکل نے آج دیوار برلن کے انہدام کی تقریب کے موقع پر کہا کہ اس دیوار کا نہ ہونا، خود اتنا بلند اور وسیع عمل ہے، جو کبھی ٹوٹ نہیں سکتا۔
اس دیوار کے انہدام کی تیسویں سال گرہ کے موقع پر جرمنی بھر میں مختلف ریلیاں نکالیں گئیں اور یادگاری تقریبات اور نمائشیں بھی منعقد ہوئیں۔ برلن میں دیوارِ برلن کے انہدام کی تقریب میں سلوواکیا، پولینڈ، چیک جمہوریہ اور ہنگری کے رہنماؤں نے شرکت کی اور پھول نچھاور کیے۔
دیوارِ برلن ، انہدام کے 30 برس مکمل
9 نومبر 1989 کو دیوار برلن گرا دی گئی تھی۔ اس شام برلن میں بھرپور جشن منایا گیا تھا۔ اس پکچر گیلری میں ہم آپ کو وہ تصاویر دکھائیں گے جہاں مغربی اور مشرقی برلن کی تقسیم کے آثار اب بھی باقی ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/W. Kumm
مشرقی گیلری
دریائے اشپری کے ساتھ 1316 میٹرطویل اب بھی دیوار برلن قائم ہے۔ اسے دنیا کی سب سے طویل ’اوپن ایئر گیلری‘ کہا جا سکتا ہے۔ 1990 میں اس دیوار کو دنیا کے مختلف ممالک کے مصوروں نے پینٹ کیا تھا۔ یہ دیوار ذاتی خواہشات، امیدوں اور خوابوں کی عکاس ہے۔ یہاں لگائی گئی تصاویر دیوار برلن گرنے کے بعد کی خوشی اور آزادی کو ظاہر کرتی ہیں۔
تصویر: picture-alliance/S. Lubenow
برلن وال میموریل
برلن کے کسی بھی علاقے میں سابقہ ’ڈیتھ اسٹرپ‘ اتنی واضح نہیں جتنی کہ یہاں ہے۔ اس یادگار میں اسی میٹر طویل برلن وال اور ایک گارڈ ٹاور کی تعمیر نو کی گئی ہے۔ یہ کمپلیکس جرمنی کی تقسیم کے حوالے سے ایک اہم یادگار ہے۔ یہاں برلن وال میں ہلاک ہونے والے افراد کو خراج عقیدت پیش کیا جاتا ہے۔
تصویر: DW/F. Wiechel-Kramüller
دیوار برلن کہا تعمیر کی گئی ؟
برلن شہر کے بہت زیادہ حصوں میں اب برلن وال نہیں دیکھی جا سکتی۔ مشرقی اور مغربی برلن اب ایک ہو چکے ہیں۔ شہر کے وسط میں پتھروں کے ذریعے ان جگہوں کی نشاندہی کی گئی ہے جہاں جہاں برلن وال تعمیر کی گئی تھی۔
تصویر: DW/F. Wiechel-Kramüller
چیک پوائنٹ چارلی
مشرقی اور مغربی برلن کی سرحد دیکھنے کے لیے سیاح اس جگہ کا دورہ ضرور کرتے ہیں۔ اس چیک پوائنٹ سے صرف غیر ملکیوں اور سفارت کاروں کو گزرنے کی اجازت تھی۔ اکتوبر 1961 میں برلن وال کی تعمیر کے کچھ ہی عرصے بعد اس جگہ امریکی اور سویت ٹینک آمنے سامنے آ گئے تھے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/W. Kastl
آنسوؤں کا محل
اس مقام پر بہت دکھی الوداعی ملاقاتیں ہوئیں۔ یہاں فریڈریش سٹراسے پر قائم سرحد سےسینکڑوں لوگ مشرقی برلن سے مغربی برلن گئے تھے۔ سیاح اُس راستے سے گزر سکتے ہیں جہاں پاسپورٹس چیک کیے جاتے تھے۔ سیاح اس گزرگاہ سے چلتے ہوئے یہ محسوس کر سکتے ہیں کہ اس وقت شہریوں کو کتنی سختی کا سامنا کرنا پڑتا تھا۔
تصویر: ullstein - Mrotzkowski
ہوہین شُون ہاؤزن میموریلl
سن1994 سے اس سابقہ ’ستاسی جیل‘ کو کمیونسٹ آمریت کے دوران متاثرین کی یادگار بنا دیا گیا تھا۔ سیاحوں کو بتایا جاتا ہے کہ مشرقی جرمنی کی کمیونسٹ حکومت کس طرح سے لوگوں کو قید رکھتی تھی اور تفتیش کے دوران کیسے حربے استعمال کیے جاتے تھے۔ یہ تفصیلات سابقہ قیدی بیان کرتے ہیں۔
تصویر: picture alliance/dpa/P. Zinken
ٹوئیفل بیرگ لسننگ اسٹیشن
دوسری عالمی جنگ کے بعد اس جگہ کو ملبہ پھینکنے کے لیے استعمال کیا جاتا تھا۔ جنگ کی وجہ سے ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہونے والی عمارات کے ملبہ کے ذریعے مغربی برلن کے سب سے اونچے مقام پر ٹوئیفلبرگ کی تعمیر کی گئی تھی۔ سرد جنگ کے دوران امریکا کی قومی سکیورٹی ایجنسی اس مقام کو ’لسسننگ اسٹیشن‘ کے طور پر استعمال کرتی تھی۔ اس مقام پر وارسا معاہدے میں شریک ممالک کے عسکری پیغامات سنے جا سکتے تھے۔
تصویر: Ullstein/Getty Images
گلینیکے برج
آپ سمجھتے ہوں گے کہ شاید جاسوسوں کا تبادلہ صرف فلموں میں دیکھا جاتا ہے۔ لیکن برلن اور پوسٹ ڈام کے درمیان اس پل پر ایسے تین آپریشنز کیے گئے ہیں۔ سٹیون اسپیلبرگ نے اس تاریخی مقام کو اپنی فلم ’بریج آف سپائز‘ میں بھی استعمال کیا تھا۔
تصویر: imago/Camera4
جرمن سپائے میوزیم
پوسٹ ڈامر پلاٹز پر بنایا گیا یہ عجائب گھر آپ کو جاسوسی کی دنیا میں لے جاتا ہے۔ اس عجائب گھر میں خاص توجہ سرد جنگ کے دوران برلن کی سرگرمیوں پر دی گئی ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/B. von Jutrczenka
9 تصاویر1 | 9
یورپ بھر سے نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد برلن میں موجود ہے، جو اس براعظم کے مستقبل پر اپنی رائے بانٹ رہی ہے۔
برلن میں دیوارِ برلن کی تقریب میں شریک استنبول کے میئر اکرم امام آؤلو نے ڈی ڈبلیو سے بات چیت میں کہا کہ سیاسی تقسیم یورپی اتحاد کے لیے نہایت خطرناک ہے۔ ''دیواریں ضروری نہیں کہ مادی ہوں۔ ضروری نہیں کہ وہ سیمنٹ، بجری یا فولاد سے تعمیر کی جائیں۔ کبھی کبھی دو افراد ایک دوسرے کے بالکل قریب کھڑے ہوتے ہیں اور ایک غائبانہ دیوار ان کے درمیان قائم ہوتی ہے۔‘‘
جرمن اور غیرملکی مہمانوں کی جانب سے اس تقریب میں شرکت کے بعد، برلن کے رہائشیوں نے دوپہر میں بیرناؤور اشٹراسے میں دیوارِ برلن کی یادگار کے قریب موم بتیاں روشن کی۔
اس موقع پر سابقہ مشرقی جرمنی ''ڈیموکریٹک ریپبلک جرمنی‘‘ کی گاڑیاں بھی برلن میں دوڑتی دکھائی دیں، جو دیوار برلن کے انہدام کے جشن کا حصہ تھیں۔ آج ہی کے دن سابقہ مشرقی جرمن حکام نے مشرقی برلن کے رہائشیوں کے لیے مغربی برلن میں داخل ہونے کے لیے دروازے کھول دیے تھے اور وہ پیدل اور مقامی گاڑیوں کے ہم راہ مشرقی سے مغربی برلن میں داخل ہوئے تھے۔
آج لائپزگ شہر میں بھی مقامی حکام نے ایک خصوصی نمائش کا انعقاد کیا۔ اس نمائش میں سابقہ مشرقی جرمنی کے مصوروں نے سن 1989 کے جو مناظر اپنی نگاہوں سے دیکھے تھے، انہیں فن کے ذریعے پیش کیا۔ اس نمائش کا نام ''پوائنٹ آف نو ریٹرن‘‘ یا 'نکتہء ناقابلِ واپسی‘ رکھا گیا تھا۔
تیس برس قبل جب سابقہ مشرقی جرمنی کے حکام نے اپنی سرحدیں کھولیں، تو ہزاروں افراد مغربی جرمنی کی طرف دوڑے تاکہ وہاں کام تلاش کر سکیں۔ اس وقت سابقہ مشرقی جرمنی کے علاقوں میں آبادی میں مسلسل کمی کا رجحان ہے۔