1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

دیوتا کی مبینہ بے حرمتی پر پاکستانی ہندو برادری کی تشویش

عبدالستار، اسلام آباد
12 اپریل 2018

پاکستان مسلم لیگ ن کی طرف سے مبینہ طور پر ہندوؤں کے ایک دیوتا کی ’بے حرمتی‘ پر پاکستانی ہندو برادری میں غصے اور تشویش کی لہر دوڑ گئی ہے اور وہ اس مسئلے کو ہر فورم پر اٹھانے کی تیاریاں کر رہی ہے۔

پاکستان تحریک انصاف کے رہنما عمران خانتصویر: picture-alliance/ZUMAPRESS/R. Sajid Hussain

دس اپریل کو مبینہ طور پر ن لیگ کی آفیشیل ویب سائٹ پر عمران خان کی ایک تصویر کو ایک مقدس ہندو ہستی کے طور پر دکھایا گیا تھا اور اس کے ساتھ مبینہ طور پر دل آزاری کا باعث بننے والا  ایک جملہ بھی تحریر کیا گیا تھا۔ اس مسئلے کو ایک ہندو رکن اسمبلی نے پاکستانی پارلیمان کے ایوان زیریں میں بھی اٹھایا، جس پر قومی اسمبلی کے اسپیکر نے وزارت داخلہ کو اس معاملے کی تحقیق کا حکم دے دیا۔ اس مسئلے پر پاکستانی سوشل میڈیا پر بھی بہت بحث جاری ہے جب کہ بھارتی میڈیا نے بھی اس معاملے کو نمایاں جگہ دی ہے۔

’عمران خان رینگنے والے جانوروں سے گھرے ہوئے ہیں‘

خواتین سیاستدانوں کو جنسی طور پر ہراساں کیا جاتا ہے، ریحام خان
سیاسی مبصرین کے خیال میں یہ معاملہ ن لیگی ایم این اے رمیش کمار کی طرف سے سیاسی وفاداریاں تبدیل کرنے کے واقعے کے فوراﹰ بعد سامنے آیا۔ رمیش کمار ن لیگ کے ایم این اے تھے لیکن انہوں نے حال ہی میں تحریک انصاف میں شمولیت اختیار کر لی تھی۔

ناقدین کا کہنا ہے کہ پاکستان مسلم لیگ ن کی قیادت کو کم از کم اس واقعے کی مذمت کرنا چاہیے تھیتصویر: Getty Images/AFP/A. Qureshi


اس مسئلے پر اپنا موقف بتاتے ہوئے رمیش کمار نے ڈوئچے ویلے کو بتایا، ’’نون لیگ نے گھٹیا حرکت انتہا پسندوں کے ووٹ حاصل کر نے کے لیے کی ہے۔ یہ کام توہین مذہب کے ذمرے میں آتا ہے لیکن ہم اس مسئلے کو اس طرح نہیں اٹھانا چاہتے کہ اس سے پاکستان کی بین الاقوامی سطح پر بدنامی ہو۔ میں نے اس مسئلے کو قومی اسمبلی میں اٹھایا ہے، جہاں اسپیکر نے وزارت داخلہ کو کہا ہے لیکن وزرات داخلہ نے اس میں کوئی دلچسپی نہیں دکھائی کیونکہ وزیر داخلہ بھی ن لیگ کا ہے۔ ہمیں بتایا گیا ہے کہ ایف آئی اے اس کی چھان بین کرے گی لیکن اب تک ایف آئی نے ہم سے کوئی رابطہ نہیں کیا۔‘‘

ملک میں آج کل سب سپریم کورٹ کے چیف جسٹس ثاقب نثار سے امیدیں لگا رہے ہیں۔ رمیش کمار نے بھی عدالت عالیہ سے امیدیں باندھی ہوئی ہیں۔ انہوں نے کہا، ’’ہم نے چیف جسٹس سے بھی درخواست کی ہے کہ وہ اس معاملے کو دیکھیں۔ ہمارے لوگوں میں بہت اشتعال پایا جاتا ہے لیکن ہم صبر کیے ہوئے ہیں۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ ن لیگ نے نہ ہی اس واقعے کی مذمت کی اور نہ ہی کوئی معافی مانگی۔ ن لیگ میں جو ہندو اور اقلیتوں کے اراکین ہیں، وہ بھی خاموش بیٹھے ہیں۔ لیکن میں خاموش نہیں بیٹھوں گا اور اس مسئلے کو ہر فورم پر اٹھاؤں گا۔ اس حرکت کے بعد ن لیگ کو اقلیتی برادری میں کوئی پذیرائی نہیں ملے گی۔‘‘

نواز شريف پر جوتا کس نے پھينکا؟

نواز شریف پارٹی کی صدارت نہیں کر سکتے، سپریم کورٹ کا فیصلہ

پاکستان میں سوشل میڈیا پر بہت سی غیر مصدقہ خبریں، جعلی تصویریں اور ترمیم شدہ ویڈیو کلپ بھی اپ لوڈ کیے جاتے ہیں۔ یہاں تک کہ کئی سیاسی رہنماؤں نے بھی ایسی ہی تصاویر اور خبروں کے حوالے دے کر بیانات بھی داغ دیے۔ ایک موقع پر تو ن لیگ کے رہنما خواجہ آصف کو اس پر معذرت بھی کرنی پڑ گئی۔

عمران خان کی جماعت پی ٹی آئی کی ایک خاتون رہنما پر بھی یہ الزام عائد کیا گیا تھا کہ انہوں نے پارٹی کے جلسے میں لوگوں کی تعداد بہت زیادہ دکھانے کے لیے ایک دوسرے ملک کے ایسے ہی ایک اجتماع کی تصویر اپ لوڈ کر دی تھی۔ اس رجحان کے پیش نظر ن لیگ کہتی ہے کہ ہو سکتا ہے کہ یہ کام کسی اور نے کیا ہو۔

پارٹی کے سینئر رہنما راجہ ظفرالحق نے اس بارے میں اپنی رائے دیتے ہوئے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’آپ کے علم میں ہے کہ سوشل میڈیا پر کس طرح غیر تصدیق شدہ خبریں چلتی ہیں۔ تو پہلے اس بات کی تحقیق ہونی چاہیے کہ آیا یہ کام ن لیگ نے کیا ہے یا پارٹی کو بد نام کرنے کے لیے کسی اور نے یہ شرارت کی ہے کیونکہ ہماری پارٹی کی یہ پالیسی نہیں ہے۔ ہم تمام مذاہب کا احترام کرتے ہیں۔ تحقیقات میں اگر ہماری پارٹی کا کوئی فرد ملوث پایا جاتا ہے، تو اسے قانون کے مطابق کڑی سے کڑی سزا دی جائے لیکن چھان بین سے پہلے الزام تراشی نہیں کی جانا چاہیے۔‘‘

نواز شریف بیرون ملک نہیں جا سکتے، عدالت

اپوزیشن اتحاد کا امیدوار سینیٹ چیئرمین منتخب

دوسری طرف پاکستانی ہندو برادری کے کئی افراد اس بات پر نالاں ہیں کہ مسلم لیگ ن کم از کم اس واقعے کی مذمت ہی کر دیتی۔ پاکستان ہندو فورم کے صدر ڈاکٹر جے پال چھابڑیا نے اس حوالے سے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’ٹھیک ہے، اگر ن لیگ نے یہ کام نہیں کیا تو وہ کم از کم اس کی بھر پور مذمت تو کر سکتی تھی۔ پارٹی کے رہنماؤں کو آگے آ کر اس کی مذمت کرنا چاہیے تھی۔ اگر وہ مصروف تھے، تو وزیر اطلاعات یہ کام کر سکتی تھیں۔ لیکن افسوس کی بات ہے کہ ایسی کوئی مذمت کی ہی نہیں گئی۔ ہماری برادری میں اس حوالے سے تشویش بھی پائی جاتی ہے اور غصہ بھی۔ ہم تمام قانونی اور آئینی پلیٹ فارمز پر اس معاملے کو اٹھا نے جا رہے ہیں۔‘‘

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں