'دیچوتی جہاز سے اترنے والے مہاجر بچے ’ڈھانچے‘ نظر آ رہے تھے‘
انفومائگرینٹس
28 اگست 2018
اٹلی کے ساحلی شہر کاتانیا میں غیر سرکاری تنظیموں کے مطابق دیچوتی نامی جہاز سے اطالوی بندرگاہ پر اتارے جانے والے ستائیس تنہا بچے غذائی قلت کے سبب ڈھانچے نظر آ رہے تھے۔ این جی اوز کے مطابق یہ بچے انتہائی تھکے ہوئے تھے۔
تصویر: picture alliance/AP Photo
اشتہار
مہاجرین کے حوالے سے خبریں فراہم کرنے والے ادارے انفو مائیگرنٹس کے مطابق انسانی امداد کے لیے کام کرنے والی بعض غیر سرکاری تنظیموں کے کارکنان کا کہنا ہے کہ اٹلی کے بندرگاہی شہر کاتانیا میں دیچوتی نامی جہاز کے لنگر انداز ہونے کے بعد اس پر سے اتارے گئے ستائیس بچے غذا کی کمی کے سبب ڈھانچہ نظر آ رہے تھے۔
یہ تمام بچے کسی سرپرست کے بغیر ہی یورپ کے پر خطر سمندری سفدر پرنکلے تھے۔ ان میں سے چند بچے پیروں میں درد کے باعث ٹھیک طرح سے چل نہیں سکتے تھے جبکہ ایک مہاجر بچہ ایسا بھی تھا جو ایک سال تک اندھیرے میں قید رکھے جانے کے باعث صحیح طور سے دیکھ نہیں پاتا تھا۔
تصویر: Reuters/A. Parrinello
ان بچوں میں بچیس کم سن لڑکے اور دو بچیاں شامل ہیں جن میں سب سے کمزور بچے کا وزن محض تیس کلو تھا۔ این جی اوز کے کارکنان کا کہنا تھا کہ ایک بچے کے کندھے میں درد تھا کیونکہ ایک واردات کے دوران اسے گولی لگی تھی۔ اس کے ساتھ دیگر تین چے بھی زخمی ہوئے تھے جن کے ہاتھوں اور پیروں میں پٹیاں بندھی ہوئی تھیں۔ فرانسیسی غیر سرکاری تنظیم ’ ڈاکٹرز وِد آؤٹ بارڈرز‘ اور ٹی ڈی ایچ نامی جرمن این جی او کے مطابق ان بچوں کو خارش کی بیماری لاحق تھی اور یہ بہت تھکے ہوئے اور پژ مردہ نظر آ رہے تھے۔
ان میں سے بہت سے بچوں کو ایک سال سے زائد عرصے تک لیبیا کے حراستی مراکز میں رکھا گیا تھا جہاں انہیں جسمانی اذیت اور بد سلوکی کا سامنا کرنا پڑا تھا۔
ٹی ایچ ڈی نامی این جی کی ایک خاتون کارکن نے بتایا،’’ہمیں جو بچے ملے وہ چلتے پھرتے ڈھانچے نظر آ رہے تھے۔ گزشتہ رات ہمیں جو سب سے بڑا مسئلہ درپیش تھا وہ زبان کا تھا۔ سوائے ایک چھوٹی بچی کے باقی تمام بچوں کا تعلق اریٹیریا سے ہے۔ ایم ایس ایف این جی او کی سائیکولوجسٹ نتھالی لائبہ چند بچوں سے بات کرنے میں کامیاب ہو سکیں۔
ص ح / انفو مائیگرینٹس
پریشانی و آلام کے شکار معصوم فرشتے
اس برس عالمی یوم اطفال سے قبل شائد ہی اتنے بڑی تعداد میں بچوں نے جنگوں اور غربت سے فرار ہونے کی کوشش کی ہو۔
تصویر: Reuters/A. Sotunde
غیر یقینی مستقبل
عراق میں فعال انتہا پسند گروپ ’اسلامک اسٹیٹ‘ کی دہشت گردی سے بچنے کے لیے ہزاروں ایزدی بچے بھی رواں برس بے گھر ہو گئے۔ کوئی نہیں جانتا کہ یہ بچے کب واپس گھروں کو لوٹ سکیں گے۔ عراق سے متصل ترک سرحد پر واقع ایک کیمپ میں ایک ایزدی بچے کی آنکھوں میں بھی غیر یقینی کی جھلک نمایاں ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
کھیلنے کے بجائے کام کاج
جرمنی میں مہاجرین کی اچانک آمد کے بعد اِن مہاجرین کو ہنگامی شیلٹر سینٹرز میں رکھا گیا ہے۔ جرمن صوبے باویریا کے ایک قصبے میں ایک بچہ رات کے لیے بستر بچھانے کی کوشش میں ہے۔ ان تنازعات نے بچوں سے ان کا پچپن بھی چھین لیا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/D. Ebener
بہتر مستقبل کے لیے پرامید
اگرچہ یہ بچی یونان اور مقدونیہ کے سرحدی علاقے میں پھنسی ہوئی ہے لیکن پھر بھی اس معصوم بچی کا عزم دیکھا جا سکتا ہے۔ گزشتہ کچھ ہفتوں کے دوران ہزاروں افراد اسی علاقے سے ہوتے ہوئے سربیا داخل ہونے میں کامیاب ہوئے، جن کی اگلی منزل ہنگری تھی۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/D. Vojinovic
تھکن سے بے دھت
کچھا کھچ بھری ٹرین، جو بوڈاپسٹ سے میونخ کے لیے رواں تھی، اس میں مہاجر بچوں کو جہاں جگہ ملی، وہیں سو گئے۔ براستہ بلقان مغربی یورپ پہنچنے کی کوشش میں یہ بہت تھک چکے تھے۔
تصویر: Getty Images/AFP/V. Simicek
جنگوں سے فرار کی کوشش
عرب ممالک میں غریب ترین تصور کیا جانے والا ملک یمن اس وقت شدید بحران کا شکار ہے۔ ہزاروں افراد اپنے بچوں اور املاک کے ساتھ وہاں جاری جنگ سے فرار کی کوشش میں ہیں۔ اس تنازعے میں ہزاروں افراد مارے جا چکے ہیں، جن میں بچوں کی ایک بڑی تعداد بھی شامل ہے۔
تصویر: Reuters/K. Abdullah
خوارک کے لیے قطاریں
عالمی مدد کے بغیر شام میں بہت سے افراد زندگی سے شکست کھا سکتے ہیں۔ یہ بچے بے صبری سے منتظر ہیں کہ انہیں کھانے کو کچھ مل جائے۔ اِدلب میں قائم ایک کیمپ میں شامی بچوں کے لیے خصوصی انتظامات کیے گئے ہیں۔
تصویر: picture alliance/abaca
جنگ سے امن تک
تنازعات سے بچ کر یورپ پہنچنے والے بچے اور بالغ افراد وہاں کے نئے نظام سے بھی کچھ پریشان ہیں۔ ٹکٹ کیسی خریدی جائے اور سفر کیسے کیا جائے، یہ بھی ان کے لیے ایک مسئلہ ہے۔ اس تصویر میں زیریں سیکسنی کے ٹرانسپورٹ منسٹر تھوماس ویبل کچھ بچوں کو ٹکٹ مشین استعمال کرنے کا طریقہ بتا رہے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/H. Schmidt
آگے بڑھنا ہے
عالمی ادارہ برائے مہاجرت کے مطابق رواں سال افریقہ سے بحیرہ روم کے راستے یورپی ملک اٹلی پہنچنے والے مہاجرین کی تعداد ایک لاکھ اکیس ہزار بنتی ہے۔ اس کوشش میں چھبیس سو افراد مارے بھی گئے۔ اٹلی پہنچنے والے مہاجرین آگے شمالی یورپی ممالک جانا چاہتے ہیں، اس لیے ان بچوں کے لیے لامپے ڈوسا کا جزیرہ صرف ایک عارضی مقام ہے۔
تصویر: Reuters/A. Bianchi
بچوں کی توجہ بٹانے کی کوشش
اسکولوں کی سرگرمیوں کی وجہ سے بچوں کا دھیان بٹانے میں مدد مل سکتی ہے۔ یہ میانمار میں مہاجرین کا ایک کیمپ ہے، جہاں بے گھر ہونے والے روہنگیا مسلمانوں کے بچوں کے لیے ایک اسکول بھی قائم کیا گیا ہے۔ وہاں بچوں کے ذہنوں سے تشدد کے اثرات مٹانے کی کوشش بھی کی جاتی ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/N. Win
بچوں کا فوجی مقاصد کے لیے استعمال
براعظم افریقہ کے بہت سے تنازعات میں بچوں کو بھی لڑنے کی تربیت دی جاتی رہی ہے۔ مشکل ہے کہ وہاں بچے اور نو عمر لڑکے ملیشیا گروہوں کے چنگل میں آنے سے بچ نہیں سکتے۔ وسطی افریقی جمہوریہ کے تنازعے میں بھی بچوں کو فوجی مقاصد کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔
تصویر: Reuters/E. Braun
بوکو حرام کی تباہ کاریاں
انتہا پسند گروپ بوکو حرام نے بالخصوص شمالی نائجیریا اور ہمسایہ ممالک میں ایک دہشت قائم کر رکھی ہے۔ اقوام متحدہ کے ادارے یونیسف کے مطابق ان شدت پسندوں کی وجہ سے چودہ لاکھ بچے بے گھر ہو چکے ہیں۔ نائجیریا کے ایک مہاجر کیمپ میں بھوکے بچے تنازعات سے ماوراء ہو کر اپنی بھوک مٹانے کی کوشش میں ہے۔