1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

’دیکھئے، اِس بحر کی تہہ سے اچھلتا ہے کیا‘

18 مئی 2010

سائنس دانوں نے بحیرہء قطبِ جنوبی کے قریب گہرے سمندروں کی تہہ میں تیزی سے حرکت کرنے والی جن آبی موجوں کا سراغ لگایا ہے، اُن سے یہ پتہ چلانے میں مدد ملے گی کہ موسمیاتی تبدیلیاں دُنیا کے سمندروں پر کیا اثرات مرتب کرتی ہیں۔

تصویر: picture-alliance/ dpa

بحیرہء قطبِ جنوبی میں انتہائی گہرائی میں حرکت کرنے والی اِن موجوں کا حجم دریائے ایمازون کے پانی سے بھی چالیس گنا زیادہ ہے اور یہ ایک سیکنڈ میں بارہ ملین کیوبک میٹر نمکین اور ٹھنڈے یخ پانی کو ایک سے دوسری جگہ منتقل کرنے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔

یہ تحقیق آسٹریلوی اور جاپانی سائنسدانوں نے کیتصویر: AP

آسٹریلوی اور جاپانی سائنسدانوں کی اِس تحقیق کے نتائج ممتاز جریدے نیچر جیو سائنس کے ایک تازہ شمارے میں شائع ہوئے ہیں۔ اِن محققین نے پتہ چلایا ہے کہ یہ موجیں عالمی سمندروں میں پانی کی اُن مخصوص حرکات ہی کا ایک حصہ ہیں، جو ہمارے کرہء ارض کی آب و ہوا کو کنٹرول کرنے میں مدد دیتی ہیں۔

ماضی میں بھی سائنسدانوں نے اِن آبی موجوں کا مشاہدہ تو کیا تھا تاہم وہ کوئی اعدادوشمار جمع نہیں کر پائے تھے۔ خبر رساں ادارے روئٹرز سے باتیں کرتے ہوئے سٹیو رنٹاؤل نے، جو اِس تحقیقی جائزے کے مصنفین میں سے ایک ہیں، بتایا:’’ہم یہ نہیں جانتے تھے کہ پانی کی یہ حرکت کتنی اہم ہے لیکن اب ہماری تحقیق سے یہ پتہ چل چکا ہے کہ یہ بہت اہم ہے۔‘‘

رنٹاؤل کا تعلق آسٹریلوی شہر ہوبارٹ میں قائم ادارے ’’اینٹارکٹک کلائیمیٹ اینڈ ایکو سسٹمز کوآپریٹو ریسرچ سینٹر‘‘ سے ہے۔ وہ بتاتے ہیں کہ یہ موجیں بیس سینٹی میٹر فی سیکنڈ کی اوسَط رفتار سے سفر کرتی ہیں اور اب تک دریافت ہونے والی تیز رفتار ترین موجیں ہیں۔ اِس آسٹریلوی سائندان نے بتایا کہ سمندر کی سطح سے تین کلومیٹر کی گہرائی میں موجوں کی اب تک ریکارڈ کی جانے والی یہ سب سے زیادہ رفتار خود محققین کے لئے بھی بے حد حیران کن تھی۔

آسٹریلوی محقق رنٹاؤل نے مزید بتایا کہ یہ موجیں آکسیجن کی بہت زیادہ مقدار کا حامل پانی لے کر بحیرہء قطبِ جنوبی سے شمال کی جانب گہرے سمندروں کا رُخ کرتی ہیں اور جنوبی بحرِ ہند تک پہنچنے کے بعد آگے مختلف شاخوں میں بٹ جاتی ہیں۔

اِس تحقیق کے نتائج نیچر جیو سائنس میں شائع ہوئےتصویر: Nord Stream AG

خلیج میکسیکو سے شروع ہونے والی زیرِ آب موجیں گرم پانی لے کر بحیرہء قطبِ شمالی تک پہنچاتی ہیں، جس کے نتیجے میں شمالی یورپ میں ایک قدرے معتدل موسم دیکھنے میں آتا ہے۔ اگر یہ موجیں کسی وجہ سے اپنا کام سرانجام نہ دیں تو یورپ کے کئی حصے منجمد ہو کر رہ جائیں۔

سمندر اُس کاربن ڈائی آکسائیڈ کو بھی ذخیرہ کرنے کا ایک ا ہم ذریعہ ہیں، جو قدرتی طور پر یا پھر انسانوں کی وجہ سے مثلاً معدنی ایندھن جلنے سے فضا میں خارج ہوتی ہے۔ سمندروں کی تہوں میں آبی موجوں کی حرکت ہی بالآخر اِس بات کا تعین کرتی ہے کہ سمندر گرمی اور کاربن ڈائی آکسائیڈ کی کتنی مقدار کو جذب کر سکتے ہیں۔

آسٹریلوی اور جاپانی سائنسدانوں پر مشتمل اِس ٹیم نے دو برسوں تک ماپنے والے مختلف قسم کے آلات سمندر میں ساڑھے چار کلومیٹر کی گہرائی میں نصب کئے رکھے، جن کی مدد سے اِن آبی موجوں کے حجم، اِن کی رفتار، درجہء حرارت اور اُن میں موجود نمک کی مقدار کا پتہ چلایا گیا۔

رپورٹ: امجد علی

ادارت: کشور مصطفےٰ

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں
ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں