دیہاتوں کی مسماری، ’روہنگیا کی تاریخ کے خاتمے کی کوشش‘
صائمہ حیدر
13 فروری 2018
میانمار کی ریاست راکھین کی فضا سے لی گئی تازہ تصاویر میں یہاں روہنگیا مسلمانوں کی متعدد آبادیوں کو مسمار شدہ دیکھا جا سکتا ہے۔ یہ تصاویر اُن الزامات کی تصدیق کرتی ہیں کہ میانمار سے روہنگیا کی تاریخ کو مٹایا جا رہا ہے۔
اشتہار
گزشتہ سال اگست میں میانمار کی فوج کی جانب سے روہنگیا مسلم اقلیت کے خلاف شروع ہونے والے آپریشن کے بعد سے اب تک قریب سات لاکھ روہنگیا افراد ہجرت کر کے بنگلہ دیش پہنچے ہیں۔ یہ آپریشن مبینہ طور پر پولیس چیک پوسٹوں پر باغیوں کے حملوں کے بعد شروع ہوا تھا۔
اقوام متحدہ نے اس کریک ڈاؤن کو روہنگیا مسلمانوں کی نسلی تطہیر قرار دیتے ہوئے اس کی شدید مذمت کی تھی۔
انسانی حقوق کی تنظیموں کا بھی یہی کہنا ہے کہ راکھین میں روہنگیا آبادی والے سینکڑوں دیہاتوں،مسجدوں اور اُن کی املاک کو منظم طور پر تباہ کیا جا رہا ہے تاکہ اُن کی آبائی زمین سے اُن کا رشتہ ختم کیا جا سکے۔
میانمار میں یورپی یونین کے سفیر کرسٹیان شمڈ نے اپنے ٹویٹر اکاؤنٹ سے ایسی ہولناک تصاویر پوسٹ کی ہیں، جن میں روہنگیا کی تباہ شدہ بستیوں کے علاوہ بلڈوزروں سے ہموار کیے گئے علاقوں کو دیکھا جا سکتا ہے۔
فوجی کریک ڈاؤن کے دوران جلا دیے جانے والے دیہاتوں کو مکمل طور پر بلڈوز کر دیا گیا ہے جس کے بعد وہاں تعمیرات حتیٰ کہ درختوں کا نام و نشان بھی نظر نہیں آتا۔
راکھین میں ’آراکان پراجیکٹ‘ نامی این جی او کے سربراہ کِرس لیوا کا کہنا ہے، ’’ روہنگیا اپنے مسمار دیہاتوں کو دیکھ کر صدمے میں آ جائیں گے۔‘‘
میانمار حکومت پر عائد کیا جانے والا یہ الزام کہ یہاں روہنگیا مسلم اقلیت کی تاریخ کو منظم طریقے سے مٹایا جا رہا ہے، نیا نہیں ہے۔ گزشتہ سال اقوام متحدہ کے دفتر برائے انسانی حقوق نے بھی یہ کہا تھا کہ روہنگیا مسمانوں کی جغرافیائی تاریخ اور یادگاروں کو منصوبے کے تحت مٹایا جا رہا ہے۔
روہنگیا مہاجر بچے، جو اپنے جلتے گھروں کو پیچھے چھوڑ آئے
میانمار میں روہنگیا مسلمانوں پر مظالم کے نتیجے میں جو مہاجرین بنگلہ دیش پہنچے اُن میں یونیسف کے اعداد وشمار کے مطابق اٹھاون فیصد بچے ہیں۔ ان بچوں میں سے متعدد اپنے خاندان کے افراد کی ہلاکتوں کے چشم دید گواہ ہیں۔
تصویر: Reuters/C. McNaughton
گھر جل کر راکھ ہو گیا
بارہ سالہ رحمان کو بھی میانمار میں شورش کے سبب اپنا گھر چھوڑ کر بنگلہ دیش جانا پڑا۔ رحمان نے ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اس نے اپنے گھر کو اپنی آنکھوں سے جلتے ہوئے دیکھا۔ اُس کی والدہ اپنی بیماری کے باعث ساتھ نہیں آسکیں اور ہلاک کر دی گئیں۔
تصویر: DW/J. Owens
خنجر سے وار
میانمار میں کینیچی گاؤں کے رہائشی دس سالہ محمد بلال کا کہنا تھا،’’ جس دن فوج آئی انہوں نے میرے گاؤں کو آگ لگا دی اور میری ماں کو فائرنگ کر کے ہلاک کر دیا۔ میرے والد چل نہیں سکتے تھے، اس لیے ان پر بھی خنجروں سے وار کیے گئے۔ یہ سب میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا۔‘‘
تصویر: DW/J. Owens
لاوارث بچوں کا کیمپ
محمد کی بہن نور نے بھی یہ قتل و غارت گری دیکھی تھی۔ لیکن اب وہ اپنے بھائی کے ساتھ ایسے بچوں کے لیے مختص مہاجر کیمپ میں مقیم ہے، جو بغیر سرپرست کے ہیں۔ وہ خوش ہے کہ وہ یہاں کھیل سکتی ہے اور اسے کھانا بھی باقاعدگی سے ملتا ہے۔ لیکن نور اپنے والدین اور ملک کو یاد بھی کرتی ہے۔
تصویر: DW/J. Owens
گولیوں کی بوچھاڑ میں
پندرہ سالہ دل آراء اور اس کی بہن روزینہ نے بھی اپنے والدین کو اپنی آنکھوں کے سامنے قتل ہوتے دیکھا۔ دل آرا نے ڈی ڈبلیو کو بتایا،’’ میں سارا وقت روتی رہی۔ گولیاں ہمارے سروں پر سے گزر رہی تھیں لیکن میں کسی طرح فرار ہونے میں کامیاب ہو گئی۔‘‘
تصویر: DW/J. Owens
بیٹیوں کو نہ بچا سکی
روہنگیا مہاجر سکینہ خاتون کا کہنا ہے کہ جب فائرنگ شروع ہوئی تو انہوں نے اپنے بچوں کو بچانے کے لیے وہ سب کچھ کیا جو وہ کر سکتی تھیں۔ لیکن وہ اپنی دو بیٹیوں، پندرہ سالہ یاسمین اور بیس سالہ جمالیتا کو نہیں بچا سکیں، جو اس وقت پڑوس کے گاؤں میں تھیں۔
تصویر: DW/J. Owens
پہلے بھاگنے کو کہا پھر گولی چلا دی
جدید عالم اُن سینکڑوں روہنگیا بچوں میں سے ایک ہے، جو اپنے والدین کے بغیر میانمار سے فرار ہو کر بنگلہ دیش آئے ہیں۔ میانمار کے ایک دیہات منڈی پارہ کے رہائشی جدید عالم کا کہنا تھا،’’ جب میانمار کی فوج نے ہمارے گاؤں پر حملہ کیا تو انہوں نے ہمیں گاؤں چھوڑنے کو کہا۔ میں اپنے والدین کے ساتھ بھاگ ہی رہا تھا کہ فوجیوں نے میرے ماں باپ پر گولی چلا دی اور وہ موقع پر ہی ہلاک ہو گئے۔
تصویر: DW/J. Owens
باپ اور بھائیوں کا صدمہ
پندرہ سالہ یاسمین کی کہانی بھی کم درد ناک نہیں۔ اُس نے ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے کہا،’’ برما کی فوج نے میرے باپ اور بھائیوں کو ہلاک کر ڈالا اور فوجیوں کے ایک گروپ نے میرے ساتھ جنسی زیادتی کی۔‘‘
تصویر: DW/J. Owens
بیٹا نہیں مل رہا
روہنگیا پناہ گزین رحمان علی کئی ہفتوں سے مہاجر کیمپ میں اپنے آٹھ سالہ بیٹے سفاد کو تلاش کر رہا ہے۔ علی کو خدشہ ہے کہ اس کے کمسن بیٹے کو انسانی اسمگلروں نے اغوا کر لیا ہے۔ رحمان علی کا کہنا ہے،’’ نہ میں کھا پی سکتا ہوں نہ ہی سو سکتا ہوں۔ مجھے لگتا ہے کہ بیٹے کے غم میں میں پاگل ہو جاؤں گا۔‘‘