آج منائے جانے والے دیہی خواتین کے عالمی دن کے موقع پر ایک اہم سوال یہ ہے کہ پاکستانی دیہی علاقوں کی خواتین کی صورت حال کیا ہے اور انہیں سماجی و مالی استحصال سے نکال کر ملکی ترقی میں برابر کا شریک کیسے بنایا جا سکتا ہے؟
اشتہار
''میں نے گھر میں اپنی ماں کو صبح سے شام تک مسلسل کام کرتے اور پھر ذلیل ہوتے بلکہ تشدد کا نشانہ تک بنتے دیکھا۔ پاکستان کے دیہی علاقوں کے عمومی سماجی رویوں میں یہ کوئی انوکھی بات نہیں۔ مجھے ایسی زندگی سے نفرت ہو گئی، جس میں کل وقتی محنت کے بعد بھی کسی انسان کو دو وقت کی عزت کی روٹی بھی نصیب نہ ہو۔ کئی حوالوں سے اس سے بہتر زندگی تو جانور بھی گزار لیتے ہیں۔" یہ موقف ہے 28 سالہ فائزہ کا جنہوں نے دیہی علاقوں کی خواتین کے عالمی دن کے موقع پر ڈی ڈبلیو اردو کو اپنی کہانی سنائی۔
اپنے موقف کی وضاحت کرتے ہوئے انہوں نے کہا، ''باورچی خانے، گھر اور مویشیوں کے باڑے کی صفائی جیسے کاموں کا ختم نہ ہونے والا چکر میری والدہ کی زندگی نگلتا جا رہا تھا۔ وہ اپنی عمر سے کہیں بڑی لگتی تھیں اور اکثر خاموش رہتیں، جیسے اپنے حالات زندگی کو قبول کر چکی ہوں۔"
پاکستان میں اب ایک نجی ادارے میں قانونی مشیر کے فرائض انجام دینے والی فائزہ نے اپنی ناخوش گوار یادوں کی پٹاری کھولتے ہوئے بتایا، ''میرے لیے سب سے تکلیف دہ لمحات وہ ہوتے تھے، جب معمولی سی بھی کوتاہی یا بعض اوقات بغیر کسی بھی وجہ کے میری والدہ کو گالیوں اور تھپڑوں کا سامنا کرنا پڑتا۔ وہ بہت زیادہ کام کرنے کے باوجود گھر کی کمزور ترین فرد تھیں۔ یہ میری والدہ ہی کی نہیں بلکہ لاتعداد پاکستانی دیہی خواتین کی زندگی کی کہانی بھی ہے۔"
فائزہ تعلیم کو اپنے لیے نجات دہندہ تصور کرتی ہیں۔ ”لاء کالج پنجاب یونیورسٹی میں داخلہ میری زندگی کا فیصلہ کن موڑ ثابت ہوا۔ مجھے لگا اب میری زندگی اپنی والدی سے ضرور مختلف ہو گی۔ مجھے یہ شعور ملا کہ عورت کو پورا حق حاصل ہے کہ وہ اپنی مرضی کی زندگی جیے۔ وہ صرف دوسروں کی خدمت گزاری کے لیے پیدا نہیں ہوتی۔‘‘
اس نوجوان پاکستان خاتون کے بقول، ''میں آج بھی سمجھتی ہوں کہ معاشی خود مختاری بہتر زندگی کی کلید ہے۔ میری والدہ کے جو حالات تھے، وہ لیے تھے کہ ان کا الگ سے کوئی روزگار یا ذریعہ معاش نہیں تھا۔ تعلیم اور روزگار مردانہ تشدد سے تحفظ کے لیے بہترین ہتھیار ہیں۔ پاکستان کی دیہی خواتین کو تشدد کی نہیں عزت کی ضرورت ہے۔‘‘
پاکستانی دیہی علاقوں میں خواتین کی زندگی بہتر ہوتی ہوئی؟
پاکستان میں دیہی علاقوں کی خواتین کے حقوق اور آگہی کے لیے کام کرنے والے ایک غیر حکومتی ادارے PODA کے پروگرام 'دیہی اتحاد نیٹ ورک‘ کی ڈائریکٹر ناہید عباسی اس امر سے اتفاق کرتی ہیں کہ سارا دن کام کرنے کے باوجود دیہی علاقوں کی خواتین کو 'ورکنگ ویمن‘ کے طور پر سراہا ہی نہیں جاتا۔
ڈی ڈبلیو اردو سے بات چیت کرتے ہوئے ناہید عباسی نے کہا، ''تشدد سمیت یہ سب کچھ ہی ہمارے دیہی طرز زندگی کا حصہ رہا ہے۔ اب لیکن حالات بدل رہے ہیں۔" انہوں نے بتایا، ''یقیناً اس میں اہم ترین کردار تعلیم کا ہے۔ ماضی کی نسبت اب پاکستان میں خواتین کی زیادہ بڑی تعداد کالجوں اور یونیورسٹیوں میں جا رہی ہے۔ اس سے فرق تو پڑنا ہی تھا۔ اگر موجودہ دور کا ماضی سے موازنہ کیا جائے، تو بحیثیت مجموعی اس حوالے سے آگہی بڑھی ہے اور روزگار کے شعبے میں بھی خواتین کا تناسب روز بروز زیادہ ہی ہو رہا ہے۔‘‘
پاکستانی صوبہ پنجاب میں 'پنجاب کمیشن آن اسٹیٹس آف ویمن‘ خواتین کے تحفظ اور ان کے مسائل کے حل کے لیے قائم کردہ ایک حکومتی ادارہ ہے۔ اس ادارے سے وابستہ قانونی مشیر آمنہ آصف نے ڈی ڈبلیو اردو کے ساتھ گفتگو میں کہا، ''خواتین کی تعلیم اور ترقی کے لیے سازگار ماحول فراہم کرنا پاکستان کی ہر حکومت کی ترجیح رہی ہے، جس کے ثمرات بالآخر دیہی علاقوں کی خواتین تک بھی پہنچتے ہیں۔"
آمنہ آصف نے بتایا، ''خواتین کے تحفظ اور مدد کے لیے ہماری ہیلپ لائن 1043 پر اگرچہ شہری خواتین بھی رابطے کرتی ہیں لیکن زیادہ بڑی تعداد دیہی خواتین ہی کی ہوتی ہے۔ نوجوان خواتین زیادہ بہادر ہیں۔ وہ آواز اٹھانے کی ہمت کرتی ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ اپنے حقوق سے آگاہ ہیں۔ انہیں ایسے اداروں کی خدمات بھی حاصل ہیں، جو ہر طرح کی رہنمائی اور تحفظ فراہم کرتے ہیں۔ ماضی میں خواتین میں یہی شعور اور ہمت بہت ہی کم اور ایسے ادارے تو نہ ہونے کے برابر تھے۔"
اشتہار
’صورت حال بہتر ہوئی مگر تسلی بخش نہیں‘
معروف اینکر اور خواتین کے حقوق کے لیے آواز بلند کرنے والی غریدہ فاروقی یہ تو تسلیم کرتی ہیں کہ صورت حال اب کافی بہتر ہو گئی ہے، مگر وہ اسے 'تسلی بخش‘ اب بھی نہیں سمجھتیں۔
ڈی ڈبلیو سے بات چیت کرتے ہوئے انہوں نے کہا، ''پاکستانی دیہی خواتین کی زندگیوں میں تبدیلی آئی ہے، س میں تعلیم کے ساتھ ساتھ سوشل میڈیا کا بھی بڑا کردار ہے۔ اس کے علاوہ ذرائع آمد و رفت کی صورت میں بہتر سہولیات نے بھی ان کے لیے یہ کام آسان کر دیا ہے کہ وہ اپنے لیے تعلیم اور روزگار کے مواقع سے فائدہ اٹھا سکیں۔ مگر اس تبدیلی کی رفتار ابھی تک بہت سست اور تبدیلی کا حجم بہت کم ہے۔"
غریدہ فاروقی نے ایک اور پہلو کی طرف توجہ دلاتے ہوئے کہا، ''شہروں کی نسبت پاکستان کے دیہی علاقوں میں خواتین کی تعداد کہیں زیادہ ہے۔ مگر اعلیٰ ملازمتوں یا فیصلہ ساز عہدوں کی بات کی جائے تو آج بھی شہری خواتین دیہی خواتین سے بہت آگے ہیں۔ اب ہونا یہ چاہیے کہ دیہی علاقوں کی خواتین کے لیے ملازمتوں کا دائرہ بھی وسیع کیا جائے اور ان کی فیصلہ ساز عہدوں پر موجودگی کی مزید حوصلہ افزائی کی جائے۔‘‘
گھروں اور کھیتوں میں کام کرنے والی خواتین کا کردار تسلیم کرنے کی ضرورت
غریدہ فاروقی کا کہنا تھا، ''دیہی علاقوں کی خواتین نہ صرف شہری مردوں اور عورتوں بلکہ دیہی مردوں سے بھی زیادہ کام کرتی ہیں۔ لیکن ان کے کام کو کام سمجھا ہی نہیں جاتا۔ اس فرق اور اس سوچ کو بدلنے کی ضرورت ہے، جو آج بھی پوری شدت سے پائے جاتے ہیں۔ دیہی خواتین کی محنت کو بھی سراہا جانا چاہیے۔"
ناہید عباسی کے مطابق، ''حکومتی سطح پر بھی ان خواتین کو سراہا نہیں جاتا، جو ایک افسوس ناک رویہ ہے۔ ایک عام دیہی خاتون جس کا ملکی پیداوار میں بہت اہم کردار ہے، وہی عورت صحت کی بنیادی سہولیات سے محروم ہے۔ وہ ہسپتال جائے تو وہاں طبی سہولیات ہی کافی نہیں ہوتیں۔ دیہی علاقوں میں رات کے وقت کسی خاتون کو کسی شدید طبی مسئلے کا سامنا کرنا پڑ جائے، تو علاقے کے سرکاری ہسپتال میں ڈاکٹر تک نہیں ملتا۔ یہ حکومتوں کے کرنے کے وہ کام ہیں، جن کی دیہی خواتین بھی دیہی علاقوں کے مردوں اور شہری علاقوں کی آبادی کی طرح برابر کی حق دار ہیں۔‘‘
پاکستانی خواتین: روزگار اور مواقع
پاکستان کی آبادی میں مردوں کا تناسب اکاون فیصد اور خواتین کا تناسب انچاس فیصد ہے لیکن روزگار کی ملکی منڈی میں خواتین کی تعداد مردوں سے نصف ہے۔ پاکستان کی ملازمت پیشہ یا اپنا کوئی کام کرنے والی خواتین کے چہرے:
تصویر: DW/I. Jabeen
پہلی ٹرک ڈرائیور شمیم اختر
پیدائشی طور پر گوجرانوالہ اور آج کل راولپنڈی کی رہائشی شمیم اختر پاکستان کی پہلی ٹرک ڈرائیور خاتون ہیں۔ چون سالہ شمیم مالی مجبوریوں کی وجہ سے مال بردار ٹرک کی ڈرائیور بنیں حالانکہ اس شعبے میں ڈرائیونگ صرف مردوں کا پیشہ سمجھا جاتا ہے۔ پاکستان کے چند بڑے شہروں میں خواتین ٹیکسیاں اور رکشے بھی چلاتی ہیں لیکن مرد ڈرائیوروں کے مقابلے میں ان کا تناسب انتہائی کم ہے۔
تصویر: DW/I. Jabeen
ترقیاتی شعبے میں خدمات
اسلام آباد کی رہنے والی سیدہ مجیبہ بتول گزشتہ سولہ برسوں سے ترقیاتی شعبے میں کام کر رہی ہیں۔ وہ کئی بین الاقوامی غیر حکومتی تنظیموں کے لیے کام کر چکی ہیں اور اس وقت ترقیاتی شعبے میں انتظامی امور کے ایک مشاورتی ادارے کی اعلیٰ عہدیدار ہیں۔ مجیبہ کی طرح بہت سی دیگر پاکستانی خواتین بھی غیر حکومتی ترقیاتی شعبے میں کام کرتی ہیں لیکن مردوں کے مقابلے میں اس شعبے میں بھی خواتین کی تعداد بہت کم ہے۔
تصویر: Mujeebah Batool
سڑکوں سے کوڑے کرکٹ کی صفائی
چھپن سالہ شاہدہ شموئیل کو اسلام آباد میں سڑکوں پر صفائی کرتے برسوں گزر چکے ہیں۔ وہ اسلام آباد میں ترقیاتی امور کے نگران ادارے سی ڈی اے کی ملازمہ ہیں۔ شاہدہ کا کہنا ہے کہ ان کے آٹھ بچے ہیں جن میں سے چند شادی شدہ بھی ہیں لیکن خود شاہدہ کا مالی طور پر ان کی تنخواہ میں گزارہ مہنگائی کی وجہ سے ناممکن ہو چکا ہے۔
تصویر: DW/I. Jabeen
خواتین قیدیوں کی مدد
فوزیہ خالد ایک ماہر نفسیات ہیں، جو خواتین کی بہبود کے شعبے میں خاص طور پر ایسی عورتوں پر توجہ دیتی ہیں، جن پر پاکستانی معاشرے میں سب سے کم دھیان دیا جاتا ہے۔ فوزیہ جیلوں میں بے سہارا خواتین کی مدد کرنے والے ایک نجی فلاحی ادارے سے منسلک ہیں اور اپنا کافی وقت مختلف جیلوں، خاص کر راولپنڈی کی اڈیالہ جیل کی قیدیوں کے ساتھ گزارتی ہیں۔
تصویر: DW/I. Jabeen
خواتین کے زیر جاموں کی فروخت
سمعیہ بی بی اسلام آباد میں پشاور موڑ پر ہر اتوار بازار میں دو سال سے اپنا سٹال لگاتی ہیں اور خواتین کے زیر جامے فروخت کرتی ہیں۔ وہ یہ سامان خود پشاور سے لا کر اسلام آباد میں بیچتی ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ انہیں ان مردانہ نظروں پر غصہ آتا ہے، جن میں عورت کے لیے کوئی عزت نہیں ہوتی۔ سمعیہ کی طرح بہت سی پاکستانی خواتین مختلف مارکیٹوں میں کئی طرح کا سامان بیچتی ہیں۔
تصویر: DW/I. Jabeen
تعلیمی شعبے میں خدمات
شگفتہ اسد کی بچوں کے لیے تعلیم میں دلچسپی کا نتیجہ یہ ہے کہ وہ اپنے قائم کیے ہوئے سپرنگ بورڈ اسکول سسٹم کی متعدد شاخیں چلاتی ہیں۔ شگفتہ کی بنیادی ذمہ داری ایک منتظمہ کی ہے، لیکن ایک ایسے معاشرے میں جہاں اسکول جانے کی عمر کے کئی ملین بچے اسکول جاتے ہی نہیں۔ تعلیمی ادارے سرکاری ہوں یا نجی، پاکستانی تعلیمی شعبے میں خواتین کی ایک بہت بڑی تعداد کام کرتی ہے۔
تصویر: Shagufta Asad
ڈاکٹروں کے طور پر ناگزیر کردار
ڈاکٹر فرحت ارشد راولپنڈی میڈیکل کالج اور کئی دیگر طبی اداروں سے وابستہ زچہ و بچہ سے متعلق امراض کی ایک ماہر معالج ہیں۔ پاکستان میں بہت سے شہری طبی سہولیات سے محروم ہیں اور ملکی آبادی میں ڈاکٹروں کا مریضوں کی تعداد کے لحاظ سے تناسب بھی خوش کن نہیں۔ پاکستانی خواتین میں ڈاکٹر بننے کا رجحان کئی برسوں سے کافی زیادہ ہے۔ اکثر خواتین علاج یا معائنے کے لیے خواتین ڈاکٹروں کے پاس ہی جانا چاہتی ہیں۔
تصویر: DW/I. Jabeen
نرسنگ، ایک پسندیدہ پیشہ
کوئی ہسپتال سرکاری ہو یا نجی، شہر میں ہو یا دیہی علاقے میں، نرسنگ کے بغیر طبی شعبے کی کامیاب کارکردگی کا تصور کہیں بھی ممکن نہیں۔ پاکستانی طبی شعبے میں نرسنگ کرنے والے پیشہ ور اور تربیت یافتہ افراد میں خواتین کی تعداد ہمیشہ ہی بڑی اکثریت میں رہی ہے۔ مرد نرسوں کی تعداد ابھی بھی بہت کم ہے۔ پورے پاکستان میں کل وقتی یا جزوقتی عملے کے طور پر لاکھوں خواتین پیشہ ور نرسوں کے فرائض انجام دے رہی ہیں۔
تصویر: DW/I. Jabeen
گھریلو خواتین، نظر انداز کر دی گئی اکثریت
شبانہ حارث اسلام آباد میں رہتی ہیں، شادی سے پہلے باقاعدہ ملازمت کرتی تھیں لیکن اب دو بچوں کی والدہ ہیں اور ایک گھریلو خاتون۔ خانہ داری کرنے والی کسی بھی خاتون یا ہاوس وائف کا صبح سے شام تک جاری رہنے والا کام کسی کل وقتی ملازمت یا روزگار سے کم نہیں ہوتا۔ اس لیے ایسی خواتین معیشت اور روزگار کی ملکی منڈی میں اپنی کوئی جگہ نہیں بنا پاتیں۔
تصویر: Shabana Haris
لاکھوں گھریلو ملازمائیں
پاکستانی دارالحکومت میں پانچ افراد پر مشتمل ایک گھرانے میں گھریلو ملازمہ کے طور پر کام کرنے والی بائیس سالہ ناصرہ کو ماہانہ دس ہزار روپے ملتے ہیں، جو دراصل اسے نہیں ملتے بلکہ اس کے والدین آ کر لے جاتے ہیں۔ ناصرہ اپنے آجر خاندان کے ساتھ ہی رہتی ہے۔ پاکستان میں کئی لاکھ خواتین اور نوجوان لڑکیاں ایسی ہیں جو گھریلو خادماؤں کے طور پر کام کرتی ہیں۔
تصویر: DW/I. Jabeen
فٹنس اور یوگا کی نجی تربیت
اسلام آباد کے سماجی حلقوں میں معروف فٹنس ٹرینر صنوبر نظیر خواتین کو بدلتے ہوئے معاشرتی تقاضوں سے ہم آہنگ بنانا چاہتی ہیں۔ وہ ملازمت اور بزنس پیشہ خواتین کو نجی طور پر جسمانی فٹنس اور یوگا کی تربیت دیتی ہیں۔پاکستان میں کئی ایسے شعبے ہیں، جن میں خواتین دوسری خواتین کی مدد کرتی ہیں۔ ان میں یوگا، فٹنس، پیراکی، اور انفارمیشن ٹیکنالوجی کی نجی ٹریننگ جیسے شعبے شامل ہیں۔
تصویر: DW/I. Jabeen
انٹیریئر ڈیزائننگ کے ذریعے خود انحصاری
آرٹ کے پس منظر کی حامل اور حیدرآباد سے تعلق رکھنے والی پارس محمود شاہ ایک انٹیریئر ڈیزائنر ہیں جنہوں نے ثقافتی ورثے سے اپنی محبت کے باعث گھروں اور غیر رہائشی عمارات کی اندرونی تزئین و آرائش کو اپنا پیشہ بنا رکھا ہے۔ وہ اس آرائش کے لیے ٹائلوں، دیواروں اور فرنیچر کی پینٹنگ سے کام لیتی ہیں۔ آرٹ اور ڈیزائننگ کو ملا کر جس طرح اپنا پیشہ انہوں نے بنایا ہے، ویسا بہت کم پاکستانی خواتین کرتی ہیں۔
تصویر: Paras Shah
بیوٹی پارلر چلانا بھی ایک کامیاب پیشہ
پاکستان کے ہر چھوٹے بڑے شہر میں ہزارہا خواتین نے اپنے میک اپ سیلون اور بیوٹی پارلر کھول رکھے ہیں، شادیوں پر دلہنوں کا خطیر رقوم دے کر پارلر سے میک اپ کروانا ایک روایت بن چکا ہے۔ اس طرح بہت سے ایسی خواتین کے لیے بھی، جو اعلیٰ تعلیم یافتہ یا کسی سائنسی پیشے کی ماہر نہیں بھی ہوتیں، اپنے پاؤں پر کھڑا ہونے کا ایک نیا اور کامیاب رستہ کھل چکا ہے۔
تصویر: DW/I. Jabeen
زرعی شعبے میں خواتین کا حصہ
ایک نیم دیہی علاقے میں مویشیوں کے لیے گھاس کاٹنے والی یہ خواتین پاکستان کی ان کئی ملین خواتین کے کردار کی علامت ہیں، جو دیہی علاقوں میں زرعی شعبے کے لیے انتہائی اہمیت کی حامل ہیں۔ پاکستان کی قریب 65 فیصد آبادی دیہی یا نیم دیہی علاقوں میں رہتی ہے۔ پاکستانی معیشت زیادہ تر ایک زرعی معیشت ہے، جس میں خواتین کھیتوں میں مردوں کے شانہ بشانہ کام کرتی ہیں۔