دیہی خواتین کا عالمی دن اور پاکستان کی صورتحال
15 اکتوبر 2015اس دن کے منانے کا مقصد دیہات میں رہنے والی خواتین کی ان کوششوں کا اعتراف کرنا ہے، جن کی بدولت معاشرے اور معیشت میں بہتری پیدا ہو رہی ہے۔ پاکستانی دیہات میں رہنے والی زیادہ تر خواتین کو ’ورکنگ ویمن‘ بھی کہا جا سکتا ہے۔ پاکستان کی دیہی عورت صرف گھر اور باورچی خانے کو ہی نہیں دیکھتی بلکہ وہ کھیتی باڑی میں بھی مردوں کا ہاتھ بٹاتی ہے۔ وہ کپاس چنتی ہے، مویشیوں کو چارہ ڈالتی ہے اور فصلوں کی کٹائی میں بھی مدد کرتی ہے۔ لیکن اس کی یہ ساری محنت نہ تو پاکستان کے جی ڈی پی میں شمار کی جاتی ہے اور نہ ہی اس محنت کا اسے کوئی مناسب معاوضہ ملتا ہے۔ اسے اس مزدروی کے نتیجے میں نہ تو سوشل سیکورٹی کے فوائد حاصل ہوتے ہیں اور نہ ہی ’میڈیکل کور‘ دستیاب ہوتا ہے۔
پاکستان کے دیہات میں کاروبار کے مواقع بھی کم ہیں لیکن ملتان جیسے اضلاع میں خواتین ہاتھ کی کڑھائی والے جو ملبوسات بناتی ہیں، انہیں انفارمل سیکٹر میں ہونے کی وجہ سے نہ تو اس کا درست معاوضہ ملتا ہے اور نہ ہی انہیں مارکیٹنگ کو بہتر کرنے کے لیے کوئی رہنمائی میسر آتی ہے۔
ماہرین کہتے ہیں کہ پاکستان کے دیہی علاقوں میں رہنے والی خواتین کو صحت، تعلیم اور پینے کے صاف پانی سمیت دیگر بنیادی سہولتوں کی کمی کا سامنا بھی رہتا ہے۔ دیہی خواتین کی حالت زار میں بہتری کے لیے کئی سالوں سے خدمات سرانجام دینے والی ایک سماجی رہنما اور عورت فاؤنڈیشن کی سینئر اہلکار نبیلہ شاہین کہتی ہیں کہ پاکستان کی دیہی خواتین کو عام طور پر فرسودہ رسم و رواج اور ’جاہلانہ‘ روایات کی وجہ سے بھی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے، ’’عورتوں پر تشدد، ونی، کم عمری کی شادیاں اور جائیداد کے تقسیم ہو جانے کے ڈر سے خواتین کی شادی نہ ہونے دینا جیسے واقعات اس کے علاوہ ہیں۔‘‘
پاکستانی امور ہر تحقیق کرنے والے لاہور یونیورسٹی کے سینئر استاد ڈاکٹر فیصل باری نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ جو عورتیں تعلیم حاصل کرتی ہیں، ان میں اعتماد آ جاتا ہے جبکہ تعلیم حاصل کرنے کے بعد اگر عورت کسی روزگار سے وابستہ ہو جائے تو اس سے اس کو گھر کی فیصلہ سازی میں بھی اہمیت ملنا شروع ہو جاتی ہے اور اس سے ان کے مسائل کم ہونا شروع ہو جاتے یں۔
ڈاکٹر باری کہتے ہیں کہ پاکستان کے دیہات میں بچوں کے اسکول تو مل جاتے ہیں لیکن بچیوں کے اسکول بہت کم ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ دیہات میں کالج تو بہت ہی کم ہیں جبکہ ماں باپ بچیوں کو دور بھیجنے کی بجائے اعلی تعلیم نہ دلانے کو ترجیح دیتے ہیں۔ ان کے بقول اسکولوں کی کمی اور اسکولوں کے دور واقع ہونے کی وجہ سے اسکولوں سے بچوں کا ڈراپ آوٹ شرح بھی بہت زیادہ ہے، ’’کے پی کے کے علاقے شانگلہ کے ایک گاؤں میں اسکول نہ ہونے کی وجہ سے کوئی ڈیڑھ ہزار سے زائد بچیاں بچوں کے اسکول جاتی ہیں حالانکہ وہ اسکول مخلوط تعلیم کے لیے منظور شدہ نہیں ہے۔‘‘
ایک سوال کے جواب میں ڈاکٹر باری نے بتایا کہ پاکستان کے شہروں کے مقابلے میں دیہات میں خواتین کو روزگار، فنی تربیت اور دیگر سہولتوں کی شدید کمی کا سامنا ہے اور زیادہ تر خواتین ٹیچنگ کے شعبے سے وابستہ ہو جاتی ہیں کیونکہ اس کے علاوہ ان کے پاس دیگر آپشنز بہت کم ہوتے ہیں۔ ڈاکٹر باری نے مزید کہا کہ دیہات میں صنفی مساوات کی صورتحال بھی شہروں کی نسبت بہت بری ہے۔
نبیلہ شاہین کے بقول دیہات میں رہنے والی خواتین عام طور ہر سماجی دباؤ کا شکار بھی رہتی ہیں جبکہ غربت اور وسائل کی کم یابی بھی دیہی عورتوں کا ایک اہم مئسلہ ہے۔ اس خاتون کارکن نے مزید کہا کہ خواتین کی بہتری کی بہت ساری اچھی باتیں اور اچھے کام شہروں تک ہی محدود رہ جاتے ہیں، ’’ضرورت اس امر کی ہے کہ دیہی عورتوں کے حوالے سے حکومت خصوصی پالیسیاں بنائے اور ان پر مؤثر عملدرآمد یقینی بنائے۔ اگر حکومت صرف خواتین کے حوالے سے پہلے سے موجود قوانین پر ہی دیہات میں عملدرآمد کروانے میں کامیاب ہو جائے تو اس سے بھی صورتحال میں بہت بہتری آ سکتی ہے۔‘‘
یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ بہت سی غیر سرکاری تنظیمیں بھی پاکستان میں دیہی خواتین کے حالات میں بہتری لانے کے لیے کام کر رہی ہیں لیکن ایسی کئی تنظیموں کو آج کل اپنی فلاحی سرگرمیوں کو جاری رکھنے میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔