پروپیگینڈے کے ذریعے لوگوں کے ذہن کو بدلا جائے تا کہ وہ موجودہ نظام کو قبول کر لیں۔ تاریخ کے مطالعے سے ہم پر یہ واضع ہوتا ہے کہ جب بھی انقلاب کے ذریعے سوسائٹی کو بدلا جاتا ہے تو قدیم اور نئے خیالات میں تصادم ہوتا ہے۔ اس لیے انقلابی حکومت قدامت پرستی کی تمام روایات اور اداروں کو سختی کے ساتھ ختم کر دیتی ہے۔
لیکن جب نئی روایات کو قائم کیا جائے تو اس کی قبولیت میں وقت لگتا ہے۔ انقلاب، جب بھی تبدیلی لاتا ہے، تو تبدیلی پُرامن نہیں بلکہ خونریز ہوتی ہے۔ اس کی مثال ہم فرانسیسی انقلاب میں دیکھتے ہیں۔ کیونکہ انقلابی حکومت کو بادشاہ، ملکہ اور اُمراء سے خطرہ تھا، اس لیے حکومت نے گیلوٹین کے ذریعے سر کاٹ کر اپنے تحفظ کے لیے یہ اقدامات کیے۔
انقلاب فرانس کی مثال
سن 1793 سے 1794ء تک فرانس کی انقلابی حکومت سخت خطرے میں گھری ہوئی تھی۔ غیر ملکی حملہ آور ہو رہے تھے اور فرانس کے اُمراء، جو یورپ میں تھے، وہ سازشوں میں مصروف تھے۔ اس لیے سیاستدان ماکسیمیلیاں دے روبیسپئیر (تاریخ وفات 1794ء) نے، جب اقتدار سنبھالا، تو انہوں نے انقلاب کے تحفظ کے لیے سخت اقدامات کیے تا کہ کوئی خطرہ نہ رہے۔
کمیٹی آف پبلِک سیفٹی کے نام سے ایک ادارہ قائم ہوا، جو اُن افراد پر مقدمے چلاتا تھا، جن پر اُسے شک و شبہ ہوتا تھا۔ کمیٹی نے ایسے بہت سے افراد کو موت کی سزا دی، جو انقلاب کے بانیوں میں سے تھے۔ مثلاً جورج دانتوں (تاریخ وفات 1794) کو ذرا سے شُبے پر موت کی سزا دے دی گئی۔ جب انہیں گیلوٹین کی جانب لے جایا جا رہا تھا تو انہوں نے کہا تھا کہ چند ہفتوں بعد روبیسپئیر کو بھی یہاں آنا ہو گا۔ گیلوٹین پر جانے سے پہلے انہوں نے اعلان کیا تھا کہ ان کے سر کو ذرا دیکھ بھال کر لوگوں کو دکھانا کیونکہ یہ ایک انقلابی کا سر ہو گا۔
ہیرو ورشپ کا رواج کیوں قائم ہے؟
محرومی اور بغاوت، ظلم کے خلاف کسانوں کی جدوجہد
دانتوں کی پیشن گوئی کے مطابق کمیٹی آف پبلِک سیفٹی، جب روبیسپئیر سے تنگ آئی، تو ان پر بھی مقدمہ چلا کر سزائے موت دے دی گئی۔ جب انہیں گاڑی میں سوار کر کے گیلوٹین کی جانب لے جایا جا رہا تھا تو سڑک کے دونوں جانب لوگ کھڑے خاموشی سے انہیں جاتا دیکھ رہے تھے۔ گیلوٹین سے ان کا سر کاٹا گیا اور اس کے نوجوان ساتھی 'لوئی آٹون سیں یوسٹ‘ کو بھی یہی سزا ملی۔ اس پر ایک انقلابی 'یاک مالے پاں‘ نے کہا تھا کہ انقلاب اپنے بچوں کو نگل جاتا ہے۔ یہ ایک المیہ تھا کہ انقلاب کے تحفظ کے لیے اس کے بانیوں کو سزائے موت دے کر انقلاب کو کمزور کیا گیا۔
انقلاب روس کی مثال
انقلاب کی دوسری مثال 1917ء کے روس کی ہے۔ انقلابی حکومت کی حفاظت کے لیے قانونی پابندیاں لگائی گئیں۔ غیر ملکی سفر پر پابندی تھی۔ مصنفوں کے لیے لازمی تھا کہ کتاب کا مسودہ ایک کمیٹی سے منظور کروایا جائے، جو کہ نجی پبلشر نہیں تھے۔ اس لیے کتاب ریاست کی جانب سے شائع ہوتی تھی۔ غیر مُلکی کتابوں کا داخلہ ممنوع تھا۔ ریاست کے اخباروں میں محدود خبریں شائع ہوتیں تھیں۔
اس کی وجہ سے روس میں نئے دانشوروں کی کمی ہو گئی۔ بعض نے اس بات کی کوشش کی کہ اپنی کتابیں یورپ میں شائع کرائیں۔ الیکساندر زولشے نیٹسین کی کتابیں "The Gulag Archipelago”، "One day in the life of Ivan Denisovich” اور ''Cancer Ward‘‘ تھیں۔ روسی حکومت نے انہیں جِلاوطن کر دیا تھا۔ کچھ عرصے کے لیے یہ یورپ اور امریکہ میں رہے لیکن آخر کار یہ روس واپس چلے گئے۔ روسی حکومت کی تمام پابندیوں کے باوجود اس کے انقلابی نظریے کا تحفظ نہیں ہو سکا۔ روسی عوام کی خاموشی نے نظریے کی سختیوں کو ختم کیا اور بلاآخر گوربا چوف نے انقلابی حکومت کا خاتمہ کر کے لوگوں کو آزادی دی۔
دوسری عالمی جنگ کے بعد مشرقی جرمنی میں کمیونسٹ حکومت قائم ہوئی۔ وہاں بھی حکومت کے تحفظ کے لیے نئے قوانین نافذ کیے گئے۔ ایسٹ جرمنی کے شہریوں کو بیرون مُلک جانے کی اجازت نہیں تھی۔ نہ ہی مغربی جرمنی کے شہری ایسٹ جرمنی آ سکتے تھے۔ مصنف کے لیے ضروری تھا کہ کتاب کا مسودہ کمیٹی کے حوالے کرے۔ جو اُس کی ایک ایک سَطر پڑھ کر دیکھتے تھے کہ کوئی بات کمیونسٹ نظریے کے خلاف نہ ہو۔
غیر مُلکی کتابوں کا آنا ممنوع تھا۔ اگر کسی دانشور کو کانفرنس کے لیے یورپ جانا ہوتا تھا، تو اُس کے لیے حکومت سے اجازت درکار ہوتی تھی،اور اُس پر یہ پابندی ہوتی تھی کہ وہ حکومت کے خلاف کچھ نہیں بولے گا۔ برلن دیوار کے مسمار ہونے تک ایسٹ جرمنی کی حکومت نے سختی کے ساتھ اپنے نظریے کا تحفظ کیا۔
یہی صورتحال اُن ملکوں کی تھی، جہاں آمرانہ حکومتیں قائم ہوئیں تھیں۔ آمر اقتدار کے تحفظ کے لیے سیاسی پابندیاں لگاتا تھا۔ اپنے مخالفوں کو قید کی سزائیں دیتا تھا۔ تنقید کرنے والوں کو اذیتیں دی جاتیں تھیں۔ اس کی مثال ہمیں ارجنٹائن، پیرو، پیراگوائے اور چلی کی آمرانہ حکومتوں میں ملتی ہے۔ ارجنٹائن میں آمرانہ حکومت نے نوجوانوں کو اغواء کر کے اُنہیں قتل کیا اور اُن کی لاشوں کو خاموشی سے دفن کر دیا۔ چلی میں آگسٹو پنوشے کی آمریت میں ایک اسٹیڈیم میں ہزاروں نوجوانوں کو جمع کر کے اُن کا قتلِ عام کیا گیا۔
پاکستان میں آمرانہ حکومتوں کے اثرات
پاکستان کو بھی آمرانہ حکومت کا تجربہ رہا ہے۔ سن 1958 میں، جب ایوب خان اقتدار میں آئے، تو اُنہوں نے پرانے دستور کو ختم کر کے 1962ء میں اپنی مرضی کا دستور بنایا۔ تمام سیاسی پارٹیوں پر پابندی عائد کر دی۔ طالبعلم یونینز ختم کر دی گئیں۔ کراچی سے سات طالبعلم رہنماؤں کو شہر بدر کیا گیا۔ ایوب خان کے نظام حکومت کی خوشامد میں کتابیں لکھوائیں گئیں۔ جب آرنلڈ ٹائن بی پاکستان کے دورے پر آیا تو اس نے بنیادی جمہوری نظام، جو صدر ایوب کا تھا، کی تعریف کی۔ ایوب خان کے بعد یہ سلسلہ 1971ء تک رہا اور آج بھی اُس کے اثرات باقی ہیں۔
جب بھی انقلابی اور آمرانہ حکومتیں اپنے نظریے کے تحفظ کے لیے قانون سازی کرتیں ہیں تو مخالفین کو قید و بند کی سزائیں دیتی ہیں۔ سیاست پر پابندی لگائی جاتی ہے۔ تعلیمی اداروں میں نصاب کو بدل دیا جاتا ہے۔ میڈیا کو کنٹرول کر کے ریاست اپنی مرضی کی خبریں دیتی ہے۔ چینلز کے بحث و مباحث میں خوشامد پسند صحافیوں کو شامل کیا جاتا ہے۔ اُن دانشوروں کو خطابات دیے جاتے ہیں، جو ریاست کی خوشامد میں مشہور ہوتے ہیں۔
اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ نظریے کا تحفظ تو ہو جاتا ہے مگر معاشرے کی تخلیقی صلاحیتیں ختم ہو جاتی ہیں۔ اَدب، آرٹ اور موسیقی میں جدت اور جاذبیت ختم ہو جاتی ہیں۔ جو دانشور اس نظام سے انحراف کرتے اور تخلیقی صلاحیتیں رکھتے ہیں، وہ اپنے مسودوں کو خاموشی سے میز کی درازوں میں رکھ کر اگلے وقت کے لیے چھوڑ جاتے ہیں۔
نوٹ: ڈی ڈبلیو اردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔
