مہسا امینی کی پولیس حراست میں ہوئی ہلاکت کو میڈیا میں پہلی مرتبہ رپورٹ کرنے والی ایرانی صحافی نیلوفر نے تمام تر الزامات مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ انہوں نے اپنی صحافتی ذمہ داریاں قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے ادا کی ہیں۔
اشتہار
گزشتہ برس ستمبر سے زیر حراست نیلوفر کو عدالت میں پیش کیا گیا تو ان پر قومی سلامتی کو نقصان پہنچانے کے الزامات لگائے گئے۔ تاہم تیس سالہ نیلوفر نے کہا کہ انہوں نے اپنی صحافتی ذمہ داریاں قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے ادا کی ہیں۔
نیلوفر کے شوہر محمد حسین آجورلو نے اپنے ایک ٹویٹ پیغام میں لکھا کہ نیلوفر قومی سلامتی کے برخلاف کسی عمل میں شریک نہیں ہوئی ہیں۔ انہوں نے تصدیق کی کہ ان کی اہلیہ نے عدالت کے سامنے خود کو بے قصور قرار دیا ہے اور ان الزامات کا سامنا کرنے کا عزم ظاہر کیا ہے۔
نیلوفر کی طرف سے مہسا امینی کی پولیس کے زیر حراست ہلاکت کی خبر بریک کرنے کے بعد ملک بھر میں عوامی مظاہرے شروع ہو گئے تھے۔ ساتھ ہی بین الاقوامی میڈیا نے بھی پولیس تشدد کے اس بہیمانہ واقعے کو شہ سرخیوں میں بیان کیا۔
ایران میں مہسا امینی خواتین کے حقوق اور ریاستی جبر کی ایک علامت بن چکی ہیں۔ اب متعدد ایرانی خواتین احتجاجی طور پر سر کو ڈھانپنا بھی ترک کر چکی ہیں، جسے ایرانی حکومت ایک انقلابی رویے کے طور پر دیکھ رہی ہے، جو اس کے لیے ناقابل قبول ہے۔
ایرانی مظاہرین کے ساتھ دنیا بھر میں اظہار یکجہتی
ایران کی اخلاقی امور کی پولیس کی حراست میں 22 سالہ مھسا امینی کی ہلاکت کے بعد تہران حکومت مظاہرین کے خلاف پرتشدد کریک ڈاؤن جاری رکھے ہوئے ہے۔ گزشتہ اختتام ہفتہ پر دنیا بھر میں ہزارہا افراد نے ایک بار پھر مظاہرے کیے۔
تصویر: Stefano Rellandini/AFP/Getty Images
پیرس
دنیا بھر میں بہت سے لوگ ایرانی مظاہرین کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کر رہے ہیں۔ فرانس کے دارالحکومت پیرس کے وسط میں اتوار کے روز مظاہرین نے ’پلاس دے لا رےپُبلیک‘ سے ’پلاس دے لا ناسیون‘ تک مارچ کیا اور ’اسلامی جمہوریہ مردہ باد‘ اور ’آمر کی موت‘ کے نعرے لگائے۔
تصویر: Stefano Rellandini/AFP/Getty Images
استنبول، دیار باقر اور ازمیر
ترکی کے شہر استنبول میں منعقدہ مظاہروں میں متعدد ایرانی خواتین بھی شامل تھیں۔ سینکڑوں مظاہرین نے ایرانی حکومت کے خلاف نعرے بازی کی۔ وہ ’خواتین، زندگی، آزادی‘ جیسے نعرے لگا رہی تھیں۔ ترکی کے کُرد اکثریتی آبادی والے صوبے دیار باقر میں خاص طور پر خواتین نے ایرانی مظاہرین سے یکجہتی کا اظہار کیا۔ مھسا امینی بھی کُرد نسل کی ایرانی شہری تھیں۔ اس کے علاوہ ترکی کے شہر ازمیر میں بھی مظاہرے کیے گئے۔
تصویر: Emrah Gurel/AP/picture alliance
برلن
جرمن دارالحکومت برلن میں تقریباﹰ پانچ ہزار افراد نے ایرانی حکومت کے خلاف احتجاج کیا۔ مظاہرین نے خواتین پر تشدد کے خلاف بین الاقوامی یکجہتی اور خواتین کے قتل کے واقعات کے خاتمے کا مطالبہ بھی کیا۔ جرمنی میں جلاوطنی کی زندگی گزارنے والے ایرانی باشندوں کے ایک ترجمان نے خونریزی بند کیے جانے اور ایران میں جمہوری اصلاحات کے نفاذ کا مطالبہ کیا۔
تصویر: Annette Riedl/dpa/picture alliance
بیروت
مشرق وسطیٰ میں بھی بہت سے شہری ایران میں احتجاجی تحریک کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کر رہے ہیں۔ لبنانی دارالحکومت بیروت میں مظاہرین قومی عجائب گھر کے باہر جمع ہوئے اور خواتین کے خلاف تشدد کے خاتمے کا مطالبہ کیا۔
تصویر: MOHAMED AZAKIR/REUTERS
لاس اینجلس
امریکہ میں بھی بہت سے مظاہرین ایران میں خواتین کے ساتھ اظہار یکجہتی کے لیے جمع ہوئے، جیسا کہ اس تصویر میں ریاست کیلیفورنیا کے شہر لاس اینجلس کے سٹی ہال کے باہر۔ اس موقع پر موسیقاروں کے ایک گروپ نے روایتی ایرانی فریم ڈرم بجائے۔ اس کے علاوہ لندن، ٹوکیو اور میڈرڈ میں بھی مظاہرے کیے گئے۔
تصویر: BING GUAN/REUTERS
شریف یونیورسٹی، تہران
مظاہروں کے آغاز سے ہی ایرانی یونیورسٹیوں کے طلبا بھی اسلامی جمہوریہ ایران کی قیادت اور اس کی جابرانہ پالیسیوں کے خلاف مظاہرے کر رہے ہیں۔ تہران میں سکیورٹی فورسز نے شریف یونیورسٹی میں احتجاج کرنے والے طلبا اور پروفیسروں کے خلاف کارروائی کی۔ ایرانی شہر اصفہان میں اتوار کے روز ہونے والے تشدد کی ویڈیوز اور تصاویر بھی بڑے پیمانے پر سوشل میڈیا پر شیئر کی گئیں۔
تصویر: UGC/AFP
6 تصاویر1 | 6
نیلوفر نے جب مہسا امینی کی خبر کو میڈیا تک پہنچایا تھا تو وہ بھی نہیں جانتی تھیں کہ ان کی یہ صحافتی ذمہ داری عوامی سطح پر آگاہی کی ایک مہم بن جائے گی۔
ایران کے مقبول اخبار شرق سے وابستہ نیلوفر کو گرفتار کرتے وقت الزام عائد کیا گیا تھا کہ وہ ریاست کے خلاف پراپیگنڈے میں ملوث ہوئی ہیں۔ ساتھ ہی الہہ محمدی نامی ایک اور خاتون صحافی کو بھی گرفتار کیا گیا تھا۔ ان دونوں کو ایک ہی جیسے الزامات کا سامنا ہے۔
نیلوفر کے شوہر محمد حسین نے بتایا ہے کہ عدالتی کارروائی میں انہیں یا کسی دوسرے گھر والے کو شامل ہونے کی اجازت نہیں تھی۔ انہوں نے اس خدشے کا اظہار بھی کیا کہ موجودہ عدالتی نظام میں ان کی اہلیہ شفاف اور غیرجانبدار عدالتی کارروائی سے محروم ہی رہیں گے۔
پیرس میں واقع پریس فریڈم گروپ 'رپورٹرز ودآؤٹ بارڈرز' نے ان دونوں ایرانی خواتین صحافیوں کے خلاف مقدمات کو 'شرمناک' قرار دیتے ہوئے مطالبہ کیا ہے کہ ان کے لیے شفاف عدالتی کارروائی یقینی بنائی جائے۔