1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بے مَصرف عِلم

9 نومبر 2025

سوسائٹی کی ترقی اور بقا کا انحصار علم پر ہے۔ جیسے جیسے سوسائٹی کی ضروریات بڑھتی جاتی ہیں تو اُس کے لیے نئے عِلم کی تخلیق ناگزیر ہوتی جاتی ہے۔ جب نیا عِلم آتا ہے تو بظاہر ایسا لگتا ہے کہ پُرانا عِلم بے مَصرف ہو گیا ہے۔

تصویر: Justin Ng/Avalon/Photohot/picture alliance

سوسائٹی کی تشکیل میں علم اہم کردار ادا کرتا ہے۔ اس لیے علم کو دو حصّوں میں تقسیم کیا جاتا ہے۔ ایک مُفید علم اور دوسرا بے مَصرف علم۔ اِس کی مِثالیں ہم تاریخ میں دیکھتے ہیں۔ جب 1792عیسوی میں کولمبس نے امریکہ دریافت کیا تو اُس کے پاس ٹالمی کا نقشہ تھا۔ ٹالمی ایک بہت پرانا اور بڑا نقشہ تھا، جس میں اس وقت دنیا کا تمام معلوم حصہ موجود تھا۔ اس لیے امریکہ پہچنے پر کولمبس کو یہ معلوم نہیں ہو سکا کہ اُس نے کوئی نیا برّاعظم دریافت کیا ہے۔

دنیا کی جغرافیہ کے بارے میں اُس وقت نئے نقشے بننا شروع ہوئے، جب یورپی تاجروں نے تجارت کی خاطر نئے بری اور بحری راستے اختیار کیے۔ خاص طور سے جب پُرتگالیوں نے نئے راستوں کے نقشے تیار کیے تو اس کے بعد ٹالمی کا نقشہ فرسودہ ہو گیا اور اُس کی ضرورت نہ رہی۔  نئے نقشوں کی مدد سے یورپی سیاحوں اور تاجروں نے دنیا کے گِرد سفر کر کے اسے دریافت کیا اور جیسے جیسے نیا علم آتا  گیا پُرانا علم بے مَصرف ہوتا چلا گیا۔

جب بھی کسی سوسائٹی میں تخلیق کی جگہ تقلید آ جائے تو وہ کبھی ذہنی ترقی نہیں کر سکتی، ڈاکٹر مبارکتصویر: privat

جب یورپ میں ریناساں کی تحریک آئی۔ تو علم پر چرچ کا کنٹرول تھا اور اُس کی تعلیمات کے خلاف کوئی نئے خیالات و اَفکار کو پیش نہیں کر سکتا تھا۔ یونیورسٹیوں میں چرچ کا نصاب نافِذ تھا۔ اس وجہ سے ترقی کے تمام راستے بند تھے۔ ریناساں کے اسکولرز نے اس فرسودہ علم کو چیلنج کر کے نیا نصاب تیار کیا۔ اس میں فلسفہ تاریخ اور جغرافیہ شامل تھے۔ بعد میں یہ سماجی علوم کہلائے، جن میں نفسیات، عمرانیات اور علمِ بشریات کا بھی اضافہ ہوا۔

نصاب کی اس تبدیلی نے نئے علوم کو دریافت کیا، جس کے بعد سوسائٹی میں ایک طرح کا انقلاب آیا اور سائنسدانوں نے اپنی ایجادات کے ذریعے کائنات کے رازوں سے پردہ اُٹھایا۔ نئے علوم نے پرانے علم کو غیر مُفید بنا کر اُن کی اہمیت کو ختم کر دیا۔ اُس کی ایک مثال طِب میں یونانی فزیشن گیلن کی ہے۔ میڈیسن کی نئی تعلیم نے گیلن کو فرسودہ کر کے اُس کو عملی زندگی سے دُور کر دیا۔

علمی دنیا میں اُس وقت تبدیلی آئی جب 1789 میں فرانسیسی انقلاب آیا اور قومی ریاست وجود میں آئی۔ اس نے چرچ کو تعلیم سے خارج کر کے قومی ریاست کو یہ ذمّہ داری دی کہ وہ نئے نصاب کے تحت، تعلیمی اداروں میں نوجوانوں کو سیکولر علم دے گی۔ اس کے بعد سے یورپ کی دوسری ریاستوں نے بھی تعلیمی اداروں کو سرکاری بنا کر اُن میں علوم کی آزادی کے مواقع دیے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ یورپ کی سوسائٹی میں فرسودہ علم کی کوئی جگہ نہیں رہی اور ضرورت کے لحاظ سے علمی ترقی میں اضافہ ہوتا رہا جو آج تک جاری ہے۔

اِس تناظُر میں جب ہم اسلامی دنیا کا تجزیہ کرتے ہیں۔ تو اس کی ابتداء عباسی خلیفہ ہارون الرشید سے ہوتی ہے۔ اس نے بیت الحکمت کے نام سے ایک ادارہ قائم کیا۔ ان میں مسلم، ہندو اور مسیجی اسکولرز شامل تھے، جو ریاضی، فلسفہ اور ایسٹرولوجی پر تحقیق کرتے تھے۔ ان کے کُتب خانے میں نادِر مخطوطات تھے۔ ہارون الرشید کو خلیفہ ماموں کے نام سے جانا جاتا ہے۔ مامون نے بھی اس کی سرپرستی کی اور رَسد گاہ کی تعمیر کرائی۔ اسی عہد میں یونانی فلسفے کے عربی میں ترجمے ہوئے۔ ماموں کی وفات کے بعد یہ علمی سرگرمیاں ختم ہو گئیں۔ پھر اس کی جگہ مدرسوں نے لی ہے۔ یہ مدرسے مذہبی اور فقہی علوم کے مرکز بن گئے ہیں، جن میں نئے علوم کی کوئی گنجائش نہیں تھی۔ امام غزالی کی وفات کے بعد بغداد کے مدرسے جو نئے صدر مدرس مقرر ہوئے تو انہوں نے فسلفے پر پابندی عائد کر دی۔

جب مدرسوں کا قیام اسلامی مُلکوں میں ہوا تو اِن میں نئے علوم کے لیے کوئی گنجائش نہیں تھی۔ ہندوستان میں دارُالعلوم دیوبند میں فلسفہ، تاریخ اور جغرافیہ کو نصاب میں نہیں رکھا گیا تھا۔ اِس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اسلامی سوسائٹی فرسودہ علوم گرفت میں رہی اور نئے علوم کو اپنے عقیدے کے خلاف سمجھ کر اُن سے پرہیز کیا۔ اِس پسِ منظر کے بعد جب ہم پاکستانی تعلیمی نصاب کو دیکھتے ہیں تو تجزیے کے بعد یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ خاص طور سے ہمارے اسکولوں کا نفاذ بے مَصرف علم سے بھرا ہوا ہے۔ ایک ایسا فرسودہ علم جو نہ ذہن کو بدلتا ہے اور نہ ہی سوسائٹی کی ضرورتوں کو پورا کرتا ہے۔ اس بے مَصرف علم سے نوجوانوں کو موجودہ حالات سے نا کوئی واقفیت ہوتی ہے اور نا علمی ترقی کا علم ہو پاتا ہے۔ اُس سے بھی یہ ناواقف رہتے ہیں۔

دنیا بھر میں تعلیمی اداروں کا کام یہ ہوتا ہے کہ وقت کے ساتھ ساتھ نئے علوم میں اضافہ ہوتا رہے۔ اب چونکہ ہمارے تعلیمی ادارے اس قابل نہیں رہے کہ وہ نئے علوم تخلیق کریں، اس لیے جو کچھ یورپ کے تعلیمی اداروں میں نئے خیالات و اَفکار اور ایجادات ہوتی ہیں ہم اُن کی تقلید کرتے ہیں۔ جب بھی کسی سوسائٹی میں تخلیق کی جگہ تقلید آ جائے تو وہ کبھی ذہنی ترقی نہیں کر سکتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہماری سوسائٹی میں نہ علم کی قدر ہے اور نہ نئے خیالات اورافکار کے لیے گنجائش ہے۔

نوٹ: ڈی ڈبلیو اردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔

ڈی ڈبلیو کی ٹاپ اسٹوری سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی ٹاپ اسٹوری

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں