ذہنی معذور شخص کو سزائے موت، امریکی ریاست ٹیکساس تنقید کی زد میں
8 اگست 2012ٹیکساس کے ڈیپارٹمنٹ آف کریمنل جسٹس کی طرف سے جاری کردہ ایک پریس ریلیز کے مطابق 54 سالہ ماروِن وِلسن کو 1992ء میں پولیس کے ایک مخبر کو قتل کرنے کے الزام میں موت کی سزا سنائی گئی تھی۔ اسے سات اگست کو مقامی وقت کے مطابق شام چھ بجکر 27 منٹ پر (عالمی وقت 23:27) زہریلا انجکش لگا کر ہلاک کر دیا گیا۔
امریکی سپریم کورٹ نے موت کی سزا پر عملدرآمد سے چند گھنٹے قبل ہی وکلائے صفائی کی طرف سے دائر کی گئی اپیل خارج کر دی تھی۔
انسانی حقوق کی بین الاقوامی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل نے اس فیصلے کو ’’انتہائی تکلیف دہ‘‘ قرار دیا ہے۔ اس کے علاوہ کئی دیگر گروپس نے بھی اس فیصلے پر تنقید کی ہے۔
امریکا کی ’ایسوسی ایشن آف انٹیلیکچوئیل اینڈ ڈیویلپمنٹ ڈس ایبیلیٹیز‘ (AAID) کے مطابق ولسن کو 2004ء میں ذہنی طور پر معذور تشخیص کیا گیا تھا ... اس کا آئی کیو لیول محض 61 تھا جو کہ اس کی عمر کے لوگوں کے مقابلے میں بہت کم تھا۔
ولسن کے وکیل لی کووارسکی کا منگل کے روز سزا پر عملدراآمد سے قبل کہنا تھا: ’’ہم شدید مایوس اور دکھی ہیں کہ سپریم کورٹ نے آج کے دن طے سزائے موت رکوانے کے لیے مداخلت کرنے سے انکار کر دیا ہے۔‘‘
کووارسکی کا مزید کہنا تھا: ’’ یہ بات شرمناک ہے کہ ریاست ٹیکساس اب بھی یہ طے کرنے کے لیے کہ کونسے شہریوں کو سزائے موت نہیں دی جائے گی، غیر سائنسی طریقہ کار استعمال کیے چلے جا رہی ہے۔‘‘
2002ء میں امریکی سپریم کورٹ نے ذہنی طور پر معذور افراد کو سزائے موت دینے کے خلاف فیصلہ دیا تھا تاہم اس نے یہ بات مختلف ریاستوں کی صوابدید پر چھوڑ دی تھی کہ وہ اس بات کا فیصلہ خود کریں کہ کونسے شخص کو ذہنی معذور قرار دیا جائے۔
ریاست ٹیکساس کی طے کردہ تعریف کے مطابق ولسن ذہنی معذوروں کی فہرست میں نہیں آتا تھا۔
گزشتہ ماہ ایک اور افریقی نژاد امریکی کو بھی ذہنی معذور تشخیص کیے جانے کے باوجود سزائے موت دے دی گئی تھی۔ 34 سالہ یوکامون ہیرن کی سزائے موت رکوانے کے لیے عالمی سطح پر احتجاج کیا گیا تھا۔
ولسن رواں برس سزائے موت پانے والا 25 واں فرد تھا۔ ان میں سے سات کو ریاست ٹیکساس میں سزائے موت دی گئی تھی۔
aba/ng (AFP)