ذیابیطس کا مرض اور ڈپریشن، نئی تحقیق
11 دسمبر 2012لیکن آسٹریلیا اور تائیوان میں محققین کی نئی تحقیق سے پتہ چلا ہے کہ ٹائپ ٹو قسم کے ذیابیطس کی، اس مرض کے خلاف سب سے زیادہ استعمال ہونے والی دوائی میٹفورمین کی وجہ سے ان خطرات میں پچاس فیصد سے بھی زائد کی کمی کی جا سکتی ہے۔
موناش یونیورسٹی کے ایک محقق مارک والکوئسٹ نے تائیوان میں بہت سے بالغ مریضوں کے طبی ریکارڈ کا بارہ سال سے بھی زائد عرصے تک تفصیلی جائزہ لیا۔ یہ ریسرچر اس نتیجے پر پہنچے کہ میٹفورمین کے استعمال کی وجہ سے مریضوں میں ڈیمینشیا کے واقعات اور پارکنسنز بیماری کے سامنے آنے کی شرح میں کافی کمی ہوجاتی ہے اور ساتھ ہی مریضوں کے موڈ سے متعلق پیدا ہونے والے بہت سے دیگر مسائل بھی کم دیکھنے میں آتے ہیں۔
مارک والکوئسٹ اس نتیجے پر پہنچے کہ اگر مریضوں میں میٹفورمین کو انسولین کی پیداوار میں اضافہ کرنے والی دوائی سلفونائل یوریا کے ساتھ ملا کر استعمال کیا جائے تو اس سلسلے میں نتائج اور بھی زیادہ واضح اور حوصلہ افزا ہوتے ہیں۔
مارک والکوئسٹ نے ابھی حال ہی میں بتایا کہ انہوں نے جن مریضوں کی صحت کا تقابلی جائزہ لیا، ان میں کافی زیادہ تعداد ایسے مریضوں کی بھی تھی جو میٹفورمین استعمال نہیں کرتے تھے۔ اپنی اس تحقیق کی تکنیکی تفصیلات کی وضاحت کرتے ہوئے پروفیسر مارک والکوئسٹ نے کہا، ’’ ہماری رائے میں اس عمل میں بنیادی کام یہ ہے کہ mitochondria کی کارکردگی اور خلیات کی بائیو انرجیٹکس کے درمیان واضح تعلق ہے۔ میٹفورمین جسم میں توانائی کے نظام کی ریگولیشن میں خرابیوں کو بظاہر دور کر دیتی ہے۔ شاید یہ کام ایک ایسے عمل کی وجہ سے ہوتا ہےجس کا ذمہ دار ایک AMP Kinase نامی انزائم ہوتا ہے‘‘۔
اس سلسلے میں جو مشترکہ ریسرچ کی گئی، اس میں تائیوان کے نیشنل ہیلتھ ریسرچ انسٹیٹیوٹ اور آسٹریلیا میں میلبورن یونیورسٹی نے مل کر کام کیا۔ اس مشترکہ تحقیقی منصوبے کی سربراہی پروفیسر والکوئسٹ نے کی۔ وہ کہتے ہیں کہ انہوں نے اور ان کے ساتھیوں نے بنیادی طور پر یہ تحقیق ٹائپ ٹوذیابیطس کے بارے میں کی ہے۔ لیکن انہیں امید ہے کہ اس ریسرچ کے نتائج کا اطلاق ٹائپ ون ذیابطس اور اس کے مریضوں پر بھی کیا جا سکتا ہے۔ تائیوان اور آسٹریلیا کے ماہرین کی یہ نئی ریسرچ ابھی حال ہی میں طبی تحقیقی جریدے medicine BMC میں شائع ہوئی تھی۔
(ij / ia (dpa