ذیابیطس کنٹرول: صحت بحال
13 نومبر 2011امریکہ کے معتبر طبی جریدے نیو انگلینڈ جرنل آف میڈیسن میں شوگر یا ذیابیطس مرض کے حوالے سے ایک نئی ریسرچ شائع کی گئی ہے۔ ریسرچر کے مطابق ابتداء ہی میں اس مرض کے خلاف جارحانہ انداز میں علاج کروانا سود مند ثابت ہوتا ہے۔ اس انداز میں علاج سے گردے پر منفی اثرات بھی کم ظاہر ہوتے ہیں۔
اس ریسرچ کے لیے ذیابیطس کوئی ڈیڑھ ہزار مریضوں کو خصوصی نگرانی کے عمل میں رکھا گیا۔ خاص طور پر ایسے مریض جن میں شوگر کی علامات انتہائی ابتدائی مرحلے پر تھیں۔ اس ریسرچ کی بنیادی تفصیلات ، امریکی سوسائٹی برائے نیفرالوجی کے امریکی شہر فیلاڈیلفیا منعقدہ اجلاس میں پیش کی گئیں۔ مریضوں پر برسوں علاج کے ساتھ ساتھ علامات کی کھوج کا عمل جاری رکھا گیا تھا۔ ریسرچر کے خیال میں اس ریسرچ کے منفی اثرات کو خاصی باریک بینی سے حاصل کیا گیا تاکہ حتمی رائے مرتب کرنے میں دقت کا سامنا نہ ہو۔
طویل ریسرچ کے بعد ہی اس کے محققین نے اعداد و شمار کو مرتب کرنے کے عمل کو مکمل کیا۔ امریکی سوسائٹی برائے نیفرالوجی کے فورم پر چیف ریسرچر ڈاکٹر ایان ڈی بوئر کا کہنا تھا کہ جُووینائل شوگر یا کم عمر بچوں میں شوگر یا ذیابیطس کی علامات بہت کم دیکھی گئی تھیں۔ سن 1993میں ریسرچ کا عمل مکمل تو ہو گیا مگر تمام افراد کو فالو اپ سٹڈی میں شامل کر لیا گیا تھا۔ ڈاکٹر بوئر کا تعلق امریکی شہر سیائٹل میں واقع واشنگٹن یونیورسٹی سے ہے۔
شوگر یا ذیابیطس کے مرض میں مبتلا ہونے کے بعد انسانی جسم کئی طویل مدتی پیچیدگیوں کا شکار ہو جاتا ہے۔ خاص طور پر انسانی گردے اس مرض کا نشانہ ہوتے ہیں۔ اس ریسرچ کے لیے تیرہ سے 39 سال کے افراد چنا گیا تھے۔ ان افراد میں پائی جانے والی بیماری ذیابیطس کے خلاف معالجین نے جارحانہ انداز میں ادویات کے کورسز کا شروع کیا۔ مریضوں کے لیے محققین کی جانب سے خاص طور پر انسولین کا انجکشن اہم تھا۔
ابتدائی اعداد و شمار اور فالو اپ ریسرچ کے بعد ماہرین نے اندازہ لگایا کہ ان افراد میں گردوں کی پیچیدگیوں کا خطرہ نصف کم ہو کر رہ گیا تھا۔ اس اہم ریسرچ کے لیے کئی دوسرے امریکی اداروں کا تعاون بھی ریسرچ ٹیم کو حاصل تھا۔
رپورٹ: عابد حسین
ادارت: عاطف بلوچ