’رائش ٹاگ‘ میں جرمن پارلیمان کا پہلا اجلاس: 150 برس قبل
21 مارچ 2021
مارچ 1871ء میں جرمن سلطنت کی برلن میں قائم پارلیمان ’رائشٹاگ‘ میں پہلی بار اجلاس منعقد ہوا۔ یہ جرمنی کا جمہوریت کی طرف بڑھنے کے ضمن میں ایک اہم قدم تھا، یعنی سیاست میں عوامی شمولیت۔
اشتہار
جرمنی کی 'بنڈسٹاگ‘ کہلانے والی پارلیمان ملک کے 'ویزیٹنگ کارڈ‘ کی حیثیت رکھتی ہے۔ برلن کی اس عمارت کی سب سے منفرد اور قابل دید چیز اس کی گنبد نما چھت ہے جو پوری شیشے کی بنی ہوئی ہے۔ یہ سیاسی شفافیت کی علامت سمجھی جاتی ہے۔ یہاں 709 منتخب اراکین پارلیمان تمام تر قوانین کا فیصلہ کرتے ہیں جن میں غیر ملکوں میں جرمن فوج کی تعیناتی کے بارے میں فیصلہ بھی شامل ہوتا ہے۔
یہ پارلیمانی اراکین ہی جرمنی کے چانسلر کا انتخاب کرتے ہیں اور ملک کو صحیح سمت چلانے کے لیے اہم فیصلے کیا کرتے ہیں۔ اب تو جرمنی میں جمہوریت روزمرہ کی زندگی کا حصہ ہے۔
21 مارچ 1871 ء میں جب برلن کے رائشٹاگ میں پہلا اجلاس منعقد ہوا تھا اُس وقت وسیع تر اختیارات کی حامل ایک عوامی نمائندہ جماعت کا کوئی تصور نہیں پایا جاتا تھا۔ سیاسی طاقت دراصل دیگر عناصر کے ہاتھوں میں تھی۔ یعنی قیصر ولہلم اول جو پروشیا کے بادشاہ بھی تھے وہ اور انہوں نے جنہیں چانسلر مقرر کیا تھا ' اوٹو فون بسمارک‘، یہ دونوں دراصل سیاسی اختیارات کا سر چشمہ تھے۔
سلطنت جرمنی کا قیام
جب 18 جنوری 1871 ء میں جرمن سلطنت کا قیام عمل میں آیا، اُس وقت ولہلم دوم کو شہنشاہ بنایا گیا اور اوٹو فون بسمارک پہلی جرمن قومی ریاست کے سیاسی امور کے ذمہ دار یعنی چانسلر بنے تھے۔
بنیادی طور پر بسمارک کے تیار کردہ 'شاہی دستور‘ نے شاہی عمل کو دور رس استحقاق سے نوازا: دفاعی ، خارجہ پالیسی میں شاہی انتظامیہ بڑی حد تک پارلیمنٹ کے اثر و رسوخ سے بالاتر رہی اور سب سے بڑھ کر ، حکومت پر گرفت مکمل طور پر شہنشاہ کے اعتماد کے ساتھ ممکن تھا ، پارلیمنٹ میں اکثریت کے ووٹ سے نہیں ۔
جمہوریت کی مشق
تمام اختیارات کے باوجود بادشاہ ولہلم دوم اور شاہی چانسلر کے لیے حکومت کرنا آسان نہ تھا۔ جرمن شہر ڈُسلڈورف کی ہائنرش ہائنے یونیورسٹی کے تاریخ دان کرسٹوف نون کے بقول،'' پروشیا میں 1850ء سے ایک پارلیمان موجود تھی لیکن وہ ایسا کرنے کی ہمت نہ کر سکے۔‘‘
اس کا ایک اور ثبوت 1848ء اور 1849ء کا جرمن انقلاب بھی تھا جو جرمنی کے وفاقی نظام کو جمہوری بنانے کی کوشش تھی۔ یہ بھی ایک واضح سگنل تھا اس امر کا کہ عوامی شمولیت کے بغیر سیاست کبھی نہیں چل سکتی۔
جرمن مُورخ نون کے مطابق،'' رائشٹاگ دراصل سیاست میں عوامی شمولیت کا تاثر دینے کے لیے ایک لبادے کی حیثیت رکھتا تھا۔‘‘ بہر حال پارلیمان میں قانون سازوں کو قوانین کے بارے میں اور بجٹ کے معاملات میں اپنی رائے دینے کا حق تھا۔‘‘
بورژوا کی زیادہ طاقت
رائشٹاگ کی طاقت یا اختیارات شروع میں فیڈرل کونسل یا ایوان بالا نے محدود کر رکھی تھی۔ پارلیمان کیساتھ ساتھ قوانین کے فیصلے ایوان بالا کیا کرتی تھی۔ اس بات کے خطرات بھی محسوس کر لیے گئے کہ شہنشاہ پارلیمانی حیثیت کو کمزور کرنے کے لیے فیڈرل کونسل یا ایوان بالا کے اتفاق سے اُسے تحلیل بھی کر سکتے ہیں۔
برلن کا رائش ٹاگ، جمہوریت کا گھر
جرمن دارالحکومت برلن میں واقع تاریخی عمارت رائش ٹاگ کی گنبد نما چھت دنیا بھر میں مشہور ہے۔ یہ عمارت جرمن تاریخ کی کئی میٹھی اور تلخ یادیں ساتھ لیے ہوئے ہے، نازی دور حکومت سے لے کر جرمنی کے اتحاد تک۔
تصویر: picture-alliance/dpa/O. Spata
رائش ٹاگ کا لان
رائش ٹاگ کا لان منتخب ارکان پارلیمان کو پرسکون انداز میں غور وفکر کا موقع فراہم کرتا ہے۔ سن انیس سو ننانوے سے یہ عمارت جرمن بنڈس ٹاگ یعنی جرمن پارلیمان کے طور پر استعمال کی جا رہی ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/T. Brakemeier
شیشے کا گنبد
رائش ٹاگ کا منفرد گنبد مشہور آرکیٹیکٹ سر نورمان فوسٹر کی تخلیق ہے۔ برلن آنے والے سیاحوں کے لیے یہ مقام انتہائی مقبول ہے۔ اس گنبد کی اونچائی چالیس میٹر (130فٹ) ہے، جہاں سے برلن کا شاندار نظارہ کیا جا سکتا ہے۔ اس گنبد سے پارلیمان کا پلینری ہال بھی دیکھا جا سکتا ہے، جو اس بات کی علامت ہے کہ لوگوں کا اجازت ہے کہ وہ قانون سازوں کو مانیٹر بھی کر سکتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/D. Kalker
پارلیمان کی شاندار عمارت
رائش ٹاگ کی تاریخی عمارت سن 1894 سے دریائے سپری کے کنارے کھڑی ہے۔ آرکیٹیکٹ پال والوٹ نے جرمن پارلیمان کے لیے پہلی عمارت تخلیق کی تھی، یہ الگ بات ہے کہ تب جرمنی میں بادشاہت کا دور تھا۔
تصویر: picture-alliance/akg-images
جمہوریت ۔۔۔ بالکونی سے
نو نومبر سن انیس سو اٹھارہ کو جب جرمنی میں بادشاہت کا خاتمہ ہوا تو سوشل ڈیموکریٹ سیاستدان فیلپ شائڈے من نے جرمنی کو جمہوریہ بنانے کا اعلان کیا۔ اس عمارت کے بائیں طرف واقع یہ بالکونی اسی یاد گار وقت کی ایک علامت قرار دی جاتی ہے، یعنی جمہوریت کے آغاز کی۔
تصویر: picture-alliance/imageBROKER/M. Weber
رائش ٹاگ میں آتشزدگی
ستائیس فروری سن انیس سو تینیتس میں یہ عمارت آتشزدگی سے شدید متاثر ہوئی۔ اس وقت کے چانسلر اڈولف ہٹلر نے اس واقعے سے فائدہ اٹھاتے ہوئے جرمنی میں آمریت نافذ کر دی۔ کیمونسٹ سیاستدان میرینوس فان ڈیر لوبے Marinus van der Lubbe کو اس سلسلے میں مجرم قرار دے دیا گیا۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo
مقتول سیاستدانوں کی یادگار
رائش ٹاگ کی عمارت کے باہر ہی لوہے کی سلیں ایک منفرد انداز میں نصب ہیں۔ اگر غور سے دیکھا جائے تو اس آرٹ کے نمونے کی ہر سل پر ان اراکین پارلیمان کے نام درج ہیں، جو سن 1933 تا سن 1945 نازی دور حکومت میں ہلاک کر دیے گئے تھے۔
تصویر: picture-alliance/imageBROKER/H. Hattendorf
روسی فوجیوں کی گرافٹی
رائش ٹاگ نہ صرف جرمنی میں نازی دور حکومت کے آغاز کی کہانی اپنے ساتھ لیے ہوئے بلکہ اس کے خاتمے کی نشانیاں بھی اس عمارت میں نمایاں ہیں۔ روسی افواج نے دو مئی سن 1945 میں کو برلن پر قبضہ کرتے ہوئے اس عمارت پر سرخ رنگ کا پرچم لہرایا تھا۔ روسی فوج کی یہ کامیابی دوسری عالمی جنگ کے اختتام کا باعث بھی بنی۔ تب روسی فوجیوں نے اس عمارت کی دیوراوں پر دستخط کیے اور پیغامات بھی لکھے، جو آج تک دیکھے جا سکتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/D. Kalker
برلن کی تقسیم
دوسری عالمی جنگ کے دوران رائش ٹاگ کی عمارت بری طرح متاثر ہوئی تھی۔ سن 1948 میں برلن کے میئر ایرنسٹ روئٹر نے لوگوں کے ایک ہجوم کے سامنے اسی متاثرہ عمارت کے سامنے ایک یادگار تقریر کی تھی۔ روئٹر نے اتحادی فورسز (امریکا، برطانیہ اور فرانس) سے پرجوش مطالبہ کیا تھا کہ مغربی برلن کو سوویت یونین کے حوالے نہ کیا جائے۔ اپنے اس موقف میں انہیں کامیابی بھی حاصل ہوئی تھی۔
تصویر: picture-alliance/akg-images
دیوار برلن کے سائے میں
جب سن 1961 میں دیوار برلن کی تعمیر ہوئی تو رائش ٹاگ کی عمارت مغربی اور مشرقی برلن کی سرحد پر تھی۔ تب اس عمارت کے شمال میں دریائے سپری اس شہر کو دو حصوں میں تقسیم کرتا تھا۔ تب مشرقی برلن کے لوگ مبینہ طور پر اس دریا کو عبور کر کے مغربی برلن جانے کی کوشش بھی کرتے تھے۔ اس کوشش میں ہلاک ہونے والوں کو خراج عقیدت پیش کرنے کی خاطر سن 1970 میں رائش ٹاگ کے قریب ہی ایک خصوصی یادگار بھی بنائی گئی تھی۔
تصویر: picture-alliance/dpa/S. Kunigkeit
دیوار برلن کا انہدام اور جرمنی کا اتحاد
نو نومبر سن 1989 میں دیوار برلن کا انہدام ہوا تو پارلیمان کی یہ عمارت ایک مرتبہ پھر شہر کے وسط میں شمار ہونے لگی۔ چار ماہ بعد اس دیوار کو مکمل طور پر گرا دیا گیا۔ دو اور تین اکتوبر سن 1990 کو لاکھوں جرمنوں نے رائش ٹاگ کی عمارت کے سامنے ہی جرمنی کے اتحاد کی خوشیاں منائیں۔
تصویر: picture-alliance/360-Berlin
جرمن پارلیمان کی منتقلی
رائش ٹاگ کی عمارت کو سن 1995 میں مکمل طور پر ترپالوں سے چھپا دیا گیا تھا۔ یہ آرٹ ورک کرسٹو اور جین کلاوڈ کا سب سے شاندار نمونہ قرار دیا جاتا ہے۔ رائش ٹاگ کی چھپی ہوئی عمارت کو دیکھنے کی خاطر لاکھوں افراد نے برلن کے اس تاریخی مقام کا رخ کیا۔ تب متحد برلن میں سب کچھ ممکن ہو چکا تھا یہاں تک اسے وفاقی جموریہ جرمنی کی پارلیمان کا درجہ ہی کیوں نہ دے دیا جائے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/W. Kumm
مستقبل کی جھلک
آرکیٹیکٹ نورمان فوسٹر اس ٹیم کے سربراہ تھے، جس نے رائش ٹاگ کی عمارت کی تعمیر نو کی۔ چار سالہ محنت کے بعد اس عمارت کا بنیادی ڈھانچہ بدلے بغیر اسے نیا کر دیا گیا۔ اب یہ ایک جدید عمارت معلوم ہوتی ہے، جس کا شیشے سے بنا گنبد آرکیٹکچر کا ایک منفرد نمونہ ہے۔ ستمبر 1999 میں اس عمارت کو جرمن پارلیمان بنا دیا گیا۔ سیاستدان اب اسی عمارت میں بیٹھ کر پارلیمانی طریقے سے جرمنی کے سیاسی مستقبل کے فیصلے کرتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/R. Jensen
12 تصاویر1 | 12
جرمنی میں تاہم معاشی اور معاشرتی ترقی نے سیاست میں عوامی شمولیت کو فروغ دیا۔
''مزدوروں کی بڑے پیمانے پر نقل و حرکت سے صنعتی نظام میں صدیوں سے چلی آ رہی دیہی اشرافیہ کو کمزور کیا اور نئی صنعتی بورژوا اشرافیہ کو تقویت ملی۔ اس کی وجہ سے عوام میں زیادہ سے زیادہ خود اعتمادی آئی اور یہ اپنی سیاسی جماعتوں کے ذریعہ زیادہ سے زیادہ اثر و رسوخ کا مطالبہ کرنے لگے۔‘‘ یہ کہنا ہے جرمن تاریخ دان کرسٹوف نون کا۔
رالف بوزن/ ک م/ ع ح
SPD کی 150 سالہ تاریخ
وفاقی جمہوریہء جرمنی کی ایک بڑی سیاسی جماعت سوشل ڈیموکریٹک پارٹی (SPD) ان دنوں اپنے قیام کے 150 سال منا رہی ہے۔ ’ ایس پی ڈی‘ کی ہنگامہ خیز تاریخ پابندیوں، جلا وطنی ، تعاقب، شکست اور کامیابیوں سے عبارت رہی ہے۔
تصویر: picture alliance / dpa
ایس پی ڈی کا قیام
یہ جماعت شہر لائپسگ میں جرمن مزدوروں کی تحریک کے دوران 23 مئی 1863ء کو قائم ہوئی تھی۔ ولی برانٹ ایس پی ڈی سے تعلق رکھنے والے پہلے چانسلر تھے، جو پارٹی کے قیام کے تقریباً سو سال کے بعد اس عہدے پر فائز ہوئے۔ ان ڈیڑھ سو برسوں میں اب تک تین سوشل ڈیموکریٹ جرمن سربراہ حکومت بن چکے ہیں۔
تصویر: DW
غیر قانونی حیثیت سے مزدور انجمن تک کا سفر
ارکان کے ابتدائی اجلاس خفیہ مقامات پر موم بتیوں کی روشنی میں منعقد ہوتے تھے۔ آؤگسٹ بیبل اور ولہیلم لیب کنیشٹ بانی ارکان کی حیثیت سے ان میں شریک ہوتے تھے۔ ایس پی ڈی کا نصب العین مزدوروں کے حق میں آواز بلند کرنا تھا۔ فرڈینانڈ لازال نے 1863ء میں ADAV کے نام سے ایک مزدور انجمن کی بنیاد رکھی تھی۔ 1872ء میں ان ارکان کی تعداد بڑھ کر اکیس ہزار ہو چکی تھی اور پھر بڑھتی ہی چلی گئی۔
تصویر: AdsD der Friedrich-Ebert-Stiftung
پابندیوں کے باوجود کامیاب
صنعتی سرگرمیوں کے نتیجے میں لوگوں کو اجرت اور کھانے کو روٹی ملنے لگی لیکن مزدوروں کے حالات ناگفتہ بہ تھے۔ بھاری صنعتوں میں کام سخت اور صحت کے لیے انتہائی نقصان دہ تھا۔ مزدور انجمنوں میں بڑھتی رکنیت کے آگے 1878ء کے سوشلسٹ قوانین کے ذریعے بند باندھنے کی کوشش کی گئی اور سوشل ڈیموکریٹ تنظیموں پر پابندی لگا دی گئی۔ اس کے باوجود ایس پی ڈی 1890ء تک ایک عوامی تحریک کی شکل اختیار کر چکی تھی۔
تصویر: Ullstein Bild
ایس پی ڈی کی تنظیمی درسگاہ
برلن میں ایس پی ڈی کی پارٹی درس گاہ میں روزا لکسمبرگ اور آؤگسٹ بیبل جیسے ممتاز سوشل ڈیموکریٹس نے تربیت حاصل کی۔ اپنے والد ولہیلم بیبل اور اُن کے الفاظ کی یاد میں:’’علم طاقت ہے، طاقت علم ہے۔‘‘ 1912ء تک ایس پی ڈی جرمنی میں سب سے زیادہ ارکان کی حامل اور سب سے زیادہ ووٹ لینے والی جماعت بن چکی تھی۔
تصویر: AdsD der Friedrich-Ebert-Stiftung
وائیمار کا ہنگامہ خیز دور
ایس پی ڈی کے سیاستدان فلیپ شائیڈے مان برلن اسمبلی (رائش ٹاگ) کی بالکونی میں۔ اُنہوں نے نو نومبر 1918ء کو ری پبلک بنانے کا اعلان کیا تھا۔ ایک سال بعد ہی ایس پی ڈی کے چیئرمین فریڈرش ایبرٹ رائش چانسلر بن گئے اور خواتین کے لیے ووٹ کا حق بھی ایک حقیقت بن گیا، جس کے لیے یہ جماعت 1891ء سے کوششیں کر رہی تھی۔ سوشل ڈیموکریٹس 1932ء تک مضبوط ترین سیاسی قوت رہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
نازی حکومت کی شدید مخالفت
23 مئی 1933 کو سوشل ڈیموکریٹ رکن پارلیمان اوٹو ویلز نے جرمن پارلیمان میں ہٹلر کے متنازعہ قوانین کے خلاف آواز بلند کی۔ انہوں نے کہا کہ ’ہماری آزادی اور زندگی تو ہم سے چھینی جا سکتی ہے، لیکن ہماری عزت کا سودا نہیں کیا جا سکتا ‘‘۔ اس کے کچھ ہی عرصے بعد مزدور تنظیموں کو کچل دیا گیا اور ایس پی ڈی پر پابندی عائد کر دی گئی۔
تصویر: AdsD der Friedrich-Ebert-Stiftung
تعاقب اور جلا وطنی
ہٹلر کے جنگی دستوں کے باوردی ارکان کی نگرانی میں سوشل ڈیموکریٹ رہنماؤں کو دیواروں پر سے نعرے ہٹانا پڑے۔ متعدد سوشل ڈیموکریٹس کو حراست میں لے لیا گیا، جبر و تشدد کا نشانہ بنایا گیا یا قتل کر دیا گیا۔ اوٹو ویلز نے 1933ء میں پراگ میں ایس پی ڈی کی جلا وطن شاخ Sopade کی بنیاد رکھی، جو بعد میں پیرس اور 1940ء تا 1945ء لندن میں سرگرم رہی۔
تصویر: AdsD der Friedrich-Ebert-Stiftung
ایس پی ڈی کا نیا دور
1946ء میں فرینکفرٹ میں کُرٹ شوماخر خطاب کر رہے ہیں، جو اتحادی افواج کے زیر قبضہ مغربی جرمن علاقوں میں سوشل ڈیموکریٹک پارٹی کے سربراہ تھے۔ سابق سوویت یونین کے زیر اثرعلاقوں میں ایس پی ڈی اور کے پی ڈی کو زبردستی ایس ای ڈی میں شامل کر دیا گیا۔ مغربی حصے میں 1949ء میں منعقدہ پہلے پارلیمانی انتخابات میں سوشل ڈیموکریٹس کو CSU کے ہاتھوں شکست ہوئی اور پھر کئی سال تک کے لیے یہ جماعت اپوزیشن میں چلی گئی۔
تصویر: AdsD der Friedrich-Ebert-Stiftung
ایک مزدور تنظیم سے ایک جدید عوامی جماعت تک
1959ء میں گوڈیز برگر پروگرام کی منظوری دیتے ہوئے سوشل ڈیموکریٹس نے مثالی سوشلسٹ نظریات کو خیر باد کہہ دیا اور اپنے دروازے رائے دہندگان کے وسیع تر طبقات کے لیے کھول دیے۔ ایس پی ڈی نے سماجی فلاح پر مبنی آزاد معیشت اپنانے اور ملک کا دفاع کرنے کا عزم ظاہر کیا، جو کہ سی ڈی یُو اور سی ایس یُو کے ساتھ اُس بڑی مخلوط حکومت میں شمولیت کی شرائط تھیں، جس میں 1966ء سے ولی برانٹ نائب چانسلر بن گئے۔
تصویر: AdsD der Friedrich-Ebert-Stiftung
ولی برانٹ کے زیر سایہ ایک نیا آغاز
وارسا میں گھٹنے ٹیکتے ہوئے سوشل ڈیموکریٹ چانسلر ولی برانٹ نے اپنی حکومت کی مشرقی یورپ کی جانب نئی خارجہ پالیسی کی بنیاد رکھی۔ اُن کے پہلے حکومتی پالیسی بیان کا مرکزی نکتہ یہ تھا کہ ’زیادہ جمہوریت کی ہمت کی جائے‘۔ بعد کے برسوں میں برانٹ نے قانون، خاندان اور مساوی حقوق کے شعبوں میں کئی ایک اصلاحات متعارف کروائیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa
پارٹی کے اندر احتجاجی تحریک
1968ء میں طلبہ کی ہنگامہ خیز احتجاجی تحریک کے نتیجے میں پارٹی میں شامل ہونے والے ارکان تازہ ہوا کا ایک جھونکا تھے تاہم وہ پارٹی کے اندر تنازعات کو ہوا دینے کا بھی باعث بنے۔ 1974ء میں ہائیڈے ماری وچورک سوئیل کی صورت میں پہلی مرتبہ ایک خاتون یوتھ وِنگ کی سربراہ منتخب ہوئیں۔
تصویر: ullstein bild
ہیلمٹ شمٹ اور’ جرمن خزاں‘
چانسلر ہیلمٹ شمٹ کے دور حکومت کے مشکل ترین لمحات میں سے ایک لمحہ وہ تھا، جب چانسلر نے 1977ء میں آجرین کی تنظیم کے مقتول صدر ہنس مارٹن شلائر کی بیوہ کے ساتھ ہمدردی کا اظہار کیا۔ بائیں بازو کی انتتہا پسند تنظیم ’ریڈ آرمی فیکشن‘ کی دہشت گردانہ سرگرمیاں شمٹ کے لیے ایک آزمائش کی حیثیت اختیار کر گئیں۔ پارٹی میں اندرونی تنازعات بھی زور پکڑ گئے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
حزب اختلاف کی حیثیت سے مشکل دور
1982ء میں سوشل لبرل اتحاد کے ختم ہونے کے بعد ایس پی ڈی ایک بار پھر کسی سال کے لیے اپوزیشن میں چلی گئی۔ 1994ء میں جرمن پارلیمان کے انتخابات میں ایس پی ڈی کے روڈولف شارپنگ کو ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔ اس کے کچھ ہی عرصے بعد پارٹی کے اندر ہونے والی ووٹنگ میں وہ پارٹی قائد کے انتخاب میں غیر متوقع طور پر صوبے زار لینڈ کے وزیر اعلیٰ آسکر لافونتین سے ہار گئے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
ایس پی ڈی اور اصلاحات کا چیلنج
ہیلمٹ کوہل کے کئی سالہ دور کے بعد ستمبر 1998ء میں ایس پی ڈی کی حکومت بنی۔ ماحول دوست گرین پارٹی کے ساتھ بننے والی اس مخلوط حکومت میں گیرہارڈ شروئیڈر ایس پی ڈی کی جانب سے چانسلر کے عہدے پر فائز ہوئے۔ اس دوران شروئیڈر نے ایجنڈا 2010ء کے نام سے اصلاحات کا ایک جامع پروگرام شروع کیا۔ ٹریڈ یونین تنظیموں نے سخت تنقید کی اور ارکان تیزی سے اس جماعت کو چھوڑ کر نئی جماعت ’دی لِنکے‘ میں شامل ہونے لگے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
چانسلر شپ کے مشکل امیدوار
پیئر اشٹائن بروک ستمبر میں ہونے والے انتخابات میں سوشل ڈیموکریٹک پارٹی کی جانب سے چانسلر شپ کے امیدوار ہیں۔ سابق وزیر مالیات کو اقتصادی ماہر کی حیثیت سے اس بحرانی دور میں اس عہدے کے لیے موزوں امیدوار قرار دیا جا رہا ہے۔ تاہم اشٹائن بروک کو اپنے بے باک بیانات کی وجہ سے اکثر اپنی پارٹی کے اندر بھی تنقید کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ رائے عامہ کے تازہ ترین جائزوں میں وہ انگیلا میرکل سے بہت پیچھے ہیں۔