1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

رائف بداوی رہا لیکن قید دیگر صحافیوں کے لیے بھی بولنا ہوگا

12 مارچ 2022

سعودی بلاگر رائف بداوی کو سزا مکمل کرنے کے بعد جمعے کے روز جیل سے رہا کردیا گیا۔ لیکن ان کی آزادی پر قدغن نیز آزاد پریس کے خلاف کارروائیوں کے مدنظر عالمی برادری کو خاموش نہیں رہنا چاہئے۔ جسٹن شیلاڈ کا مشورہ:

Raif Badawi wieder frei
تصویر: Paul Chiasson/empics/picture alliance

تقریبا ً ایک دہائی تک جیل کی سلاخوں کے پیچھے رکھنے کے بعد سعودی حکام نے بالآخر رائف بداوی کو قید سے رہا کردیا۔ بداوی ایک بلاگر ہیں۔ وہ اپنی تحریروں میں اور آن لائن فورمز پرسیکولر اور لبرل قدروں کی وکالت کرتے رہے ہیں۔ انہیں جون 2012 میں گرفتار کرلیا گیا تھا اور سزائے موت سنائی گئی۔ لیکن بین الاقوامی سطح پر شدید مذمت اور دباؤ کے بعد یہ سزا دس برس قید اور 1000 کوڑوں کے علاوہ دو لاکھ 66 ہزار امریکی ڈالر جرمانے کی سزا میں تبدیل کردی گئی۔ انہیں سزا کے حصے کے طور پر پچاس کوڑے لگائے بھی گئے تاہم عالمی دباو نے مزید کوڑوں سے بچالیا۔

بداوی جن دنوں جیل میں تھے، اس دوران سعودی عرب میں دو متضاد رجحانات دیکھنے کو ملے۔ مملکت کے عملاً حکمراں ولی عہد محمد بن سلمان کی ماتحتی میں سعودی عرب دنیا بھر میں صحافیوں کے لیے سب سے بڑے جیلوں میں سے ایک اور نگرانی اور جاسوسی کے ٹیکنالوجی کا مرکز بن گیا۔ سن 2018 میں واشنگٹن پوسٹ کے کالم نویس جمال خاشقجی کے ہولناک قتل پر ولی عہد پر بھی انگلیاں اٹھائی گئیں۔

 لیکن اس دوران ولی عہد امریکی حکومت اور بین الاقوامی برادری کی طرف سے براہ راست سزا سے بچ نکلنے میں نہ صرف کامیاب رہے بلکہ دنیا نے محمد بن سلمان کی ماتحتی میں سعودی عرب کو عالمی اسٹیج پر ایک اہم کردار کے طورپر بھی تسلیم کرلیا۔

تصویر: Getty Images/AFP/T. Schwarz

بداوی کی گرفتاری کے مضمرات

بداوی کی گرفتاری اور سزا کا فیصلہ محمد بن سلمان کے اقتدار میں عروج سے کئی برس پہلے کی بات ہے۔ ان کی تحریریں اس بات کی مثال ہیں دنیا کے سب سے زیادہ سینسر کیے جانے والے ملکوں میں سے ایک میں آزاد صحافت کس طرح برقرار رہی۔

بداوی نے سن 2006 میں آن لائن مباحثوں کا آغاز کیا جہاں سعودی شہری سیاست او رمذہب پر اپنی آراء کا اظہار کرتے تھے۔ لیکن 2008 تک وہ کم از کم ایک مرتبہ حراست میں لیے جاچکے تھے۔ اس کے باوجود انہوں نے اپنا کام جاری رکھا جو بعد میں 'فری سعودی لبرلز' نیٹ ورک کی شکل میں سامنے آیا،جس کے رجسٹرڈ افراد کی تعداد ہزاروں میں تھی۔ اگلے چند برسوں کے دوران ایک طرف تو وہ اس فورم کو چلاتے رہے دوسری طرف مقامی اور علاقائی اخبارات میں سیکولرزم اور لبرل ازم کی وکالت میں کالم لکھتے رہے۔ بداوی کی تحریریں سعودی سماج میں مذہب اور لبرل ازم کے کردار پر بدلتے ہوئے نظریات کی عکاسی کرتی ہیں۔

سعودی عرب کی ایک عدالت نے بداوی کی تحریروں پر انہیں سات برس قید اور 600 کوڑے لگانے کی سزا سنائی۔ جب انہوں نے اس سزا کے خلاف اپیل کی تو اپریل 2014 میں قید کی مدت بڑھا کر دس برس اور کوڑوں کی تعداد ایک ہزار کردی گئی۔ اس کے علاوہ دس لاکھ سعودی ریال کا جرمانہ اور قید سے رہائی کے بعد دس برس تک سفر پر پابندی بھی عائد کردی گئی۔

سعودی حکام نے جنوری 2015 میں بداوی کو 50 کوڑے لگائے بھی لیکن ان کی خراب صحت اور بین الاقوامی تنقید کے مدنظر بقیہ کوڑوں کی سزا موخر کردی۔

کوڑے مارنے کی سزا کو موخر کرنے سے یہ تاثر پیدا ہوا کہ سعودی حکام کوعالمی رائے عامہ کا احساس ہے۔ لیکن جب بداوی کی بہن ثمر بداوی کی سن  2019 میں گرفتاری کی کینیڈا نے نکتہ چینی کی تو سعودی حکومت نے کینیڈیائی سفیر کو ملک سے نکال دیا۔ اس کا مقصد ملک کے انسانی حقوق کے ریکارڈ کی نکتہ چینی کرنے والوں کو تنبیہ کرنا اور یہ بتانا بھی تھا کہ سعودی حکام کسی تنقید کے حوالے سے کتنے حساس ہیں۔

رائف بداوی آزاد کردیے گئے لیکن سعودی حکام کی طرف سے ان پر اور دیگر لوگوں پر سفری پابندیاں عائد رہیں گی۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ وہ ابھی مزید ایک دہائی تک اپنے اہل خانہ سے نہیں مل پائیں گے۔ رائف بداوی کی اہلیہ انصاف حیدر اپنے تین بچوں کے ساتھ کینیڈا میں سیاسی پناہ گزین کے طورپر زندگی گزار رہی ہیں۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ متعدد دیگر صحافیوں کو برسوں سے قید میں رکھنے اور انسانی حقوق کی خلاف ورزی کے واقعات کے باوجود سعودی عرب حکومت کو امریکہ اور یورپی یونین کے رکن ممالک کی فوجی حمایت حاصل ہے۔ بداوی کو کوڑے مارنے کی پہلے دور کی سزا کے خلاف بین الاقوامی سطح پر جو ردعمل دیکھنے کو ملا وہ اب کم ہوتا جارہا ہے جبکہ صحافیوں کے خلاف سعودی حکام کی زیادتیاں کئی گنا بڑھ گئی ہیں۔

تصویر: Sean Gallup/Getty Images

مسلسل بین الاقوامی دباؤ کی ضرورت

بین الاقوامی برادری کو چاہئے کہ سعودی حکام پر اپنا دباؤ برقرار رکھے تاکہ جیل میں بند دیگر قیدیوں کو بھی رہائی نصیب ہوسکے، رہا ہونے والوں پر عائد سخت پابندیاں ختم ہوسکیں، سنسرشپ اور نگرانی کے نظام کا خاتمہ ہو اور خاشقجی کے قاتلوں کو انصاف کے کٹہرے میں کھڑا کیا جاسکے۔

بداوی کو پچاس کوڑے مارا جانا جتنا ہولناک تھا اتنی ہی یہ بات خوش آئند کہ بین الاقوامی دباو کی وجہ سے ان کی زندگی کا چراغ بجھنے سے بچ گیا۔ لیکن بداوی کی رہائی کے بعد ایسا نہیں سمجھنا چاہئے کہ سعودی عرب میں سب کچھ معمول پر آگیا ہے۔ بلکہ ان کی رہائی کے بعد بین الاقوامی دباو میں مزید اضافہ کرنے کی ضرورت ہے۔

گزشتہ تین برسوں کے دوران سعودی عرب میں صحافیوں کی گرفتاریوں اور خاشقجی کے قتل پراحتساب کا فقدان بین الاقوامی برادری کی مایوس کن خاموشی کو اجاگر کرتی ہے۔ اب جب کہ بداوی جیل سے باہر آگئے ہیں،دنیا بھر کی حکومتوں کو ایک بار پھر متحد ہوکر ان دیگر صحافیوں کے حق میں بھی آواز بلند کرنی چاہئے جو اب بھی جیلوں میں بند ہیں۔ جب بداوی کو سچ بولنے پر کوئی خوف نہیں تھا تو اظہار رائے کی آزادی کا دعوی کرنے والے ملکوں کو بھی خوف زدہ ہونے کی کوئی ضرورت نہیں۔

جسٹن شیلاڈ/ ج ا /  ع ب

(جسٹن شیلاڈ صحافیوں کی عالمی تنظیم 'کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس' سے وابستہ سینیئر ریسرچر ہیں)

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں