1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

'رات کی تاریکی' میں چھبیسویں آئینی ترمیم منظور

21 اکتوبر 2024

پاکستان کی پارلیمنٹ نے عدلیہ میں اصلاحات کے نام پر متعارف کرائی جانے والی 26 ویں آئینی ترمیم کو منظور کر لیا۔ وزیر اعظم شہباز شریف نے اسے تاریخی قرار دیا، جبکہ پی ٹی آئی نے اسے آزاد عدلیہ کا گلہ گھونٹنے کا عمل قرار دیا۔

شہباز شریف
وزیر اعظم شہباز شریف نے اس آئینی ترمیمی بل کو ایک تاریخی دن قرار دیا، جبکہ اپوزیشن جماعتوں نے اسے آزاد عدلیہ کا گلہ گھونٹنے کا عمل قرار دیاتصویر: National Assembly of Pakistan/AP/picture alliance

اتوار اور سوموار کی درمیانی رات کو ہونے والے سینٹ اور قومی اسمبلی کے الگ الگ اجلاسوں میں آئینی ترمیمی بل کو منظوری کے لئے پیش کیا گیا۔ چھبیسویں آئینی ترمیمی بل کی شق وار منظوری کے دوران پی ٹی آئی، سنی اتحاد کونسل اور مجلس وحدت المسلمین پاکستان کے ارکان ایوان سے باہر چلے گئے۔

حکومت کو سینیٹ میں ترمیم کے لیے دوتہائی اکثریت یعنی 64 ووٹ درکار تھے۔ لیکن سینیٹ اجلاس میں  65 ارکان نے ترمیمی بل کے حق میں ووٹ دئیے۔ جبکہ اپوزیشن کے ایوان میں کچھ دیر کے لئے موجود  4 ارکان نے بعض شقوں کی مخالفت میں ووٹ دئیے۔

جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سینٹرز نے بھی ترمیم کے حق میں ووٹ دیا۔بلوچستان نیشنل پارٹی مینگل کے دو اراکین قاسم رونجھو اور نسیمہ احسان نے  اپنی پارٹی پالیسی کے برعکس اس ترمیم کے حق میں ووٹ دیا۔ پاکستان تحریک انصاف کے دو ارکان سینیٹ ڈاکٹر زرقا اور فیصل سلیم  جن کے بارے میں کہا جا رہا تھا کہ وہ پی ٹی آئی کے فیصلے کے خلاف ووٹ دیں گے وہ ایوان میں آئے ہی نہیں۔

آئینی ترامیم: حکومت اور پس پردہ طاقتیں ناکام؟

قومی اسمبلی میں 26 ویں آئینی ترمیم کی منظوری کے لیے حکومت کو 224 ووٹ درکار تھے تاہم ترمیم پر شق وار منظوری کے دوران 225 ارکان نے ترمیم کے حق میں ووٹ دیا۔ قومی اسمبلی میں جے یو آئی ف سمیت حکومتی اتحاد کے اراکین کی تعداد 219 تھی، قومی اسمبلی میں پی ٹی آئی کی حمایت سے الیکشن جیتنے والے آزاد ارکان چودھری الیاس، عثمان علی، مبارک زیب، ظہور قریشی،  اور اورنگزیب کھچی نے بھی آئینی ترمیم کے حق میں ووٹ دیے۔

 قومی اسمبلی کے  اجلاس کے دوران ابتدائی دو شقوں کی شق وار منظوری کے دوران اپوزیشن کے 12 ارکان نے مخالفت میں ووٹ دیا، بعد میں اپوزیشن ارکان بائیکاٹ کرکے ایوان سے باہر چلے گئے۔

آمرانہ دور میں آئین میں شامل کردہ شقوں میں تبدیلی کا مطالبہ

چھبیسویں ترمیم کے مطابق چیف جسٹس کی مدت ملازمت 3 سال ہوگی اور اس کی عمر کی بالائی حد 65 سال ہوگی۔ ترمیمی بل کے متن کے مطابق  26 ویں آئینی ترامیم کے تحت سپریم کورٹ کا آئینی بینچ تشکیل دیا جائےگا، جوڈیشل کمیشن آئینی بینچز اور ججز کی تعداد کا تقرر کرے گا، آئینی بینچز میں جہاں تک ممکن ہو تمام صوبوں سے مساوی ججز تعینات کیے جائیں گے۔

جب آئین و قانون کاغذ کا جہاز بنا دیا جائے!

بل کے مطابق آرٹیکل 184 کے تحت از خود نوٹس کا اختیار آئینی بینچز کے پاس ہوگا، آرٹیکل 185 کے تحت آئین کی تشریح سے متعلق کیسز آئینی بینچز کے دائرہ اختیار میں آئیں گے، آئینی بینچ کم سے کم 5 ججز پر مشتمل ہوگا، آئینی بینچز کے ججز کا تقرر تین سینیئر ترین ججز کی کمیٹی کرے گی، چیف جسٹس کا تقرر خصوصی پارلیمانی کمیٹی کی سفارش پر کیا جائے گا۔

بل کے مطابق چیف جسٹس کی تقرر کے لئے 12 رکنی خصوصی پارلیمانی کمیٹی بنائی جائے گی، پارلیمانی کمیٹی میں تمام پارلیمانی پارٹیوں کی متناسب نمائندگی ہوگیتصویر: picture alliance / Xinhua News Agency

بل کے متن کے مطابق پارلیمانی کمیٹی سپریم کورٹ کے تین سینیئر ترین ججز میں سے چیف جسٹس کا تقرر کرے گی، کمیٹی کی سفارش پر چیف جسٹس کا نام وزیراعظم، صدر مملکت کو بھجوائیں گے، پارلیمانی کمیٹی چیف جسٹس کی تعیناتی 2 تہائی اکثریت سے کرے گی، کسی جج کے انکار کی صورت میں اگلے سینیئر ترین جج کا نام زیر غور لایا جائے گا۔

بل کے مطابق چیف جسٹس کی تقرر کے لئے 12 رکنی خصوصی پارلیمانی کمیٹی بنائی جائے گی، پارلیمانی کمیٹی میں تمام پارلیمانی پارٹیوں کی متناسب نمائندگی ہوگی، پارلیمانی کمیٹی میں 8 ارکان قومی اسمبلی چار ارکان سینٹ ہوں گے، چیف جسٹس آف پاکستان کی مدت تین سال ہوگی، چیف جسٹس کے لیے عمر کی بالائی حد 65 سال مقرر ہوگی۔

عمران خان کی گرفتاری پر جشن، کیا سیاست دانوں نے کچھ نہیں سیکھا؟

بل میں کہا گیا کہ آرٹیکل 184 تین کے تحت سپریم کورٹ اپنے طور پر کوئی ہدایت یا ڈیکلریشن نہیں دے سکتی، آرٹیکل 186 اے کے تحت سپریم کورٹ ہائی کورٹ کے کسی بھی کیس کو کسی دوسری ہائی کورٹ یا اپنے پاس منتقل کر سکتی ہے، ججز تقرری کمیشن ہائی کورٹ کے ججز کی سالانہ کارکردگی کا جائزہ لے گا، سپریم کورٹ کے ججز کا تقرر جوڈیشل کمیشن کرے گا۔

عمران خان کی گرفتاری پر عالمی ردِعمل، قانون کے احترام پر زور

ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے ممتاز تجزیہ کار حبیب اکرم نے بتایا کہ یہ ترمیم ایک نامکمل پارلیمنٹ کی طرف سے گی گئی ہے جس میں ملک کی  ایک بڑی سیاسی جماعت کی پوری نمائندگی نہیں ہے۔ ان کے مطابق یہ ترمیم کرنے والی پارلیمنٹ متنازعہ ہے جس کے ارکان کی بڑی تعداد کے فارم پینتالیس اور سینتالیس میں فرق ہونے کے باعث ان کی ساکھ پر سوالیہ نشانات ہیں''۔ اس ترمیم کے ذریعے عدلیہ میں چیف جسٹس کی تعیناتی کے لئے برسوں سے قائم سینارٹی کا اصول ختم کر دیا گیا ہے۔ اب ہر جج چیف جسٹس بننے کے لئے حکومت کی طرف دیکھے گا اور حکومتی منشا کے خلاف میرٹ پر فیصلے دینے والے ججز کا کیرئر متاثر ہو سکتا ہے۔ ‘‘

حبیب اکرم کے مطابق چیف جسٹس ماسٹر آف روسٹرم کے طور پر پہلے آئینی بنچوں کی تشکیل کرنے کا اختیار رکھتا تھا لیکن اب غالبا پاکستان کا واحد ملک ہے جہاں چیف جسٹس سے یہ بنچ بنانے کا اختیار لے لیا گیا ہے۔'' اس ترمیم سے عدلیہ کے اختیارات پارلیمنٹ کو دے دئیے گئے ہیں جس سے عدلیہ کی آزادی اور خود مختاری متاثر ہونے کا اندیشہ ہے۔ میرے خیال میں تاریخ اس بات کو یاد رکھے گی کہ اس ترمیم کے لئے لوٹوں سے مدد لی گئی۔ ‘‘

پاکستانی پارلیمان اور عدلیہ کے مابین رسہ کشی، اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا؟

حبیب اکرم کے مطابق اس ترمیم کے پیچھے حکومت کا یہ خوف دکھائی دیتا ہے کہ اگر سپریم کورٹ میں ان کی مرضی کا چیف جسٹس نہ آیا تو آٹھ فروری کے انتخابات کی تحقیقات ہوں گی اور موجودہ حکومت خطرے میں پڑ جائے گی۔

ڈی ڈبلیو کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے سینئر تجزیہ کار جاوید فارووقی کا کہنا تھا کہ یہ ترمیم وقت کی ضرورت تھی۔ اس سے حکومت اور پی ٹی آئی میں جاری محاذ آرائی کا خاتمہ ہوگا۔ اور غیر یقینی صورتحال میں کمی آئے گی۔''اٹھارویں ترمیم میں عدلیہ میں اصلاحات پر مبنی قانون سازی کی گئی تھی بعد میں عدلیہ کے دباو میں انیسویں ترمیم کرکے اسے واپس لے لیا گیا تھا اس وقت اسٹیبلشمنٹ عدلیہ کے ساتھ تھی۔ اب عدلیہ کے مقابلے میں اسٹیبلشمنٹ مسلم لیگ نون اور پیپلز پارٹی کے ساتھ مل کر  یہ ترامیم کروا رہی ہے۔ ‘‘

صوبائی الیکشن: قومی اسمبلی نے سپریم کورٹ کا فیصلہ رد کر دیا

چھبیسویں ترمیم کے سیاسی اثرات کے حوالے سے پوچھے جانے والے ایک سوال کے جواب میں جاوید فاروقی کا کہنا تھا کہ اس ترمیم نے بلاول کے سیاسی کئریر میں ایک بڑی کامیابی کا اضافہ کیا ہے اور انہوں نے پچھلے دو ہفتوں میں جس طرح آئینی ترامیم پر اتفاق رائے پیدا کرنے کی لئے سرگرمی دکھائی ہے  اس نے ان کی لیڈرشپ کی صلاحیتیں قوم کے سامنے آئی ہیں۔   ''وہ پیپلز پارٹی کی طرف سے آئندہ وزیر اعظم کے طور پر سامنے آنے کی صورت میں فیصلہ کن طاقتوں کی طرف سے سنجیدگی کے ساتھ زیر غور لائے جا سکتے ہیں۔ ‘‘

ایک اور سوال کے جواب میں جاوید فاروقی کا کہنا تھا کہ ان ترامیم کے بعد طاقت کے مراکز میں پاکستان تحریک انصاف اپنے ایک اہم مورچے سے محروم ہو گئی ہے۔'' اب آنے والے دنوں میں اس کے لئے آپشن مزید کم ہو سکتے ہیں۔''

حکومتیں بمقابلہ ایکس، ہم پر اثر پڑے گا؟

04:02

This browser does not support the video element.

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں