راحیل شریف پھر کابل میں، صدر غنی سے سکیورٹی مذاکرات
17 فروری 2015پاکستانی دارالحکومت اسلام آباد سے آمدہ رپورٹوں میں خبر رساں ادارے اے ایف پی نے پاکستانی فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کے حوالے سے بتایا ہے کہ جنرل راحیل شریف نے اپنے اس نئے دورہء افغانستان کے دوران افغان صدر اشرف غنی کے ساتھ جو تفصیلی بات چیت کی، اس میں دونوں شخصیات نے کابل اور اسلام آباد کے باہمی تعلقات میں بہتری کو سراہا اور اس عزم کا اظہار کیا کہ دونوں ہمسایہ ملک اپنے ہاں سرحد پار سے آنے والے عسکریت پسند عناصر کو کوئی محفوظ ٹھکانے مہیا نہیں کریں گے۔
پاکستانی فوج کے شعبہ تعلقات عامہ ISPR کے ترجمان میجر جنرل عاصم باجوہ کے ٹویٹر پر جاری کیے گئے ایک پیغام کے مطابق جنرل راحیل شریف اور صدر اشرف غنی نے اس عزم کا اظہار بھی کیا کہ نہ تو پاکستانی طالبان کو افغانستان میں اور نہ ہی افغان طالبان کو پاکستان میں کوئی پناہ دی جائے گی۔ اس کے علاوہ ایسے عسکریت پسند عناصر کو یہ اجازت بھی نہیں دی جائے گی کہ وہ ایک ملک کے ریاستی علاقے کو دوسری ریاست پر حملوں کے لیے استعمال کریں۔
اس دو طرفہ عزم کا پس منظر یہ ہے کہ پاکستان کی طرف سے افغانستان پر الزام لگایا جاتا ہے کہ وہ پاکستانی طالبان سے تعلق رکھنے والے عسکریت پسندوں کو اپنے ہاں تحفظ فراہم کرتا ہے۔ اسی طرح افغانستان کی طرف سے بھی ہمسایہ ملک پاکستان پر بار بار یہ الزام عائد کیا جاتا رہا ہے کہ وہ افغان طالبان سے تعلق رکھنے والے شدت پسندوں کو اپنی سرحدوں کے اندر پناہ دیتا ہے۔
اس دو طرفہ بداعتمادی کے خاتمے کے لیے اسلام آباد اور کابل میں ملکی حکومتیں کافی عرصے سے کوشاں تھیں۔ تاہم گزشتہ برس ستمبر میں افغانستان میں صدر اشرف غنی کے اقتدار میں آنے کے بعد سے پچھلے چند مہینوں کے دوران دونوں ملکوں کے باہمی تعلقات میں کافی بہتری دیکھنے میں آئی ہے۔
اپنے آج منگل کے روز کیے جانے والے دورہء افغانستان سے قبل جنرل راحیل شریف نے پچھلی مرتبہ کابل کا دورہ گزشتہ برس دسمبر میں پاکستانی شہر پشاور کے آرمی پبلک اسکول پر پاکستانی طالبان کے ہلاکت خیز دہشت گردانہ حملے کے فوری بعد کیا تھا۔ اس حملے میں طالبان حملہ آوروں نے ڈیڑھ سو سے زائد افراد کو قتل کر دیا تھا، جن میں بہت بڑی اکثریت پاکستانی فوج کے زیر انتظام کام کرنے والے اس اسکول کے طلبہ کی تھی۔
پاکستان میں اور بیرون ملک جنرل راحیل شریف کی ان کوششوں کو سراہا جاتا ہے جو وہ طالبان عسکریت پسندوں کے خلاف آپریشن میں تیزی کی صورت میں کر رہے ہیں۔ اس سلسلے میں پاکستانی فوج کے موجودہ سربراہ امریکا، چین، سعودی عرب، افغانستان اور دیگر ملکوں کو بھی پاکستان کے ساتھ لے کر چلنے کی کاوشوں میں مصروف ہیں تاکہ دہشت گردی کے خلاف جنگ کو زیادہ سے زیادہ کامیاب بنایا جا سکے۔