راشدہ طلیب اور الہان عمر امریکی کانگریس کے لیے دوبارہ منتخب
5 نومبر 2020
صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی مسلسل تنقید کا نشانہ بننے والی مسلم خواتین ڈیموکریٹ رکن راشدہ طبیب اور الہان عمر، ریپبلیکن امیدواروں کو شکست دے کرایک بار پھر امریکی کانگریس کے لیے منتخب ہوگئی ہیں۔
اشتہار
خواتین اور تارکین وطن کے حقوق، موسمیاتی تبدیلیوں اور طبی سہولیات کے لیے آواز بلند کرنے والی امریکی کانگریس کی رکن راشدہ طلیب اور الہان عمر کے ساتھ ان کی دو اور ہم نوا الیگزینڈریا اوکاسیو کورٹیز اور ایانا پیریسلے بھی ریپبلیکن امیدواروں کو شکست دے کر امریکی کانگریس کے لیے دوبارہ منتخب ہوگئی ہیں۔ یہ چاروں خواتین'اسکواڈ‘ گروپ کے نام سے مشہور ہیں۔
راشدہ طلیب اور الہان عمر کو اس وقت امریکی کانگریس کی پہلی مسلم خواتین رکن بننے کا اعزاز حاصل ہوا تھا جب وہ 2018 میں ڈیموکریٹک پارٹی کے امیدوار کے طور پر کامیاب ہوئی تھیں۔ راشدہ طلیب میشی گن سے اور الہان عمر مینیسوٹا سے کامیاب ہوئی ہیں جبکہ الیگزنڈریا اوکاسیو نیویارک سے اور ایانا پیریسلے میساچیوسٹس سے منتخب ہوئی ہیں۔
الہان عمر نے اپنی کامیابی پر خوشی کا اظہار کرتے ہوئے ٹوئٹر پر لکھا”ہماری بہنوں کا اتحاد مضبوط ہے۔" دیگر تینوں خواتین نے بھی ٹویٹ کر کے اپنی کامیاب پر خوشی کا اظہار کرتے ہوئے لوگوں کا شکریہ ادا کیا ہے۔
الگزینڈریا اوکاسیو کورٹیز نے ووٹروں کا شکریہ ادا کرتے ہوئے لکھا”کانگریس میں محنت کش طبقے کے لوگوں کے حقوق کے لیے لڑنا میرے لیے باعثِ اعزاز رہا ہے اور یہ میری ذمہ داری ہے۔"
آیانا پریسلی نے اپنے حامیوں سے خطاب کرتے ہوئے کہا ”ہم نے اپنی مشترکہ انسانیت اور اقدار کے لیے متحد ہو کر جدو جہد کی ہے۔"
’دی اسکواڈ‘
ان چاروں خواتین کے گرو پ کو 'دی اسکواڈ‘ کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔ ان چاروں میں سے تین امریکا میں پیدا ہوئی تھیں جب کہ الہان کی پیدائش صومالیہ میں ہوئی تھی۔
اشتہار
راشدہ طلیب کے والدین فلسطینی پناہ گزین کے طورپر امریکا آئے تھے، جہاں ڈیٹروئٹ میں راشدہ پیدا ہوئیں۔ انہوں نے قانون کی ڈگری حاصل کی ہے۔ وہ امریکی کانگریس کے لیے منتخب ہونے والی پہلی فلسطینی نژاد خاتون ہیں۔
الہان عمر صومالیہ میں پیدا ہوئیں اور کم عمری میں ہی ایک پناہ گزین کے طور پرامریکا چلی آئی تھیں۔ وہ کانگریس کے لیے منتخب ہونے والی پہلی سیاہ فام مسلم خاتون ہیں۔ امریکا منتقل ہونے سے قبل انہیں کینیا کے تارکین وطن کے کیمپ میں بھی رہنا پڑا تھا۔
امریکی کانگریس کے لیے پہلی مرتبہ منتخب ہونے کے بعد انہوں نے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ ”یہ جیت اس آٹھ سالہ بچی کے لیے ہے جو تارکین وطن کے کیمپ میں تھی۔ یہ جیت اس لڑکی کے لیے ہے جسے زبردستی کم عمری میں شادی کرنی پڑی تھی۔ یہ جیت ہر اس شخص کے لیے ہے جسے خواب دیکھنے سے روکا گیا تھا۔"
صدر ٹرمپ کے نشانے پر
راشدہ، الہان، الیگزینڈریا اورایانا امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے نشانے پر رہی ہیں۔ ان چاروں خواتین کو ٹرمپ کی شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ صدر ٹرمپ نے گزشتہ برس کہا تھا ''یہ خواتین دراصل ان ممالک سے تعلق رکھتی ہیں جہاں کی حکومتیں مکمل طور پر نا اہل اور تباہی کا شکار ہیں اور دنیا بھر میں سب سے زیادہ کرپٹ ہیں۔" انہوں نے کہا تھا کہ”یہ خواتین بہت چالاکی سے امریکا کے عوام، جو کرہ ارض پر سب سے عظیم اور طاقتور قوم ہیں، کو بتا رہی ہیں کہ ہمیں حکومت کو کیسے چلانا ہے۔“
امریکی صدر نے کہا تھا کہ ”یہ خواتین جہاں سے آئی ہیں وہاں واپس کیوں نہیں چلی جاتیں اور ان مکمل طور پر تباہ حال اور جرائم سے متاثرہ علاقوں کو ٹھیک کرنے میں مدد کریں اور پھر واپس آکر ہمیں بتائیں کہ یہ کیسے کیا جاتا ہے۔"
رشیدہ طلیب اور الہان عمر فلسطینیوں پر اسرائیلی مظالم کے خلاف مسلسل آواز اٹھاتی رہی ہیں۔ جس کی وجہ سے ان پر یہودی مخالف ہونے کا الزام بھی لگایا جاتا ہے۔ تاہم انہوں نے ان الزامات کی ہمیشہ تردید کی ہے۔ اسرائیل نے ان دونوں کے اسرائیل میں داخلے پر پابندی عائد کر رکھی ہے۔
ج ا / ص ز (اے ایف پی، روئٹرز)
برقعہ اور نقاب کن یورپی اور مسلم ممالک میں ممنوع ہے؟
ہالینڈ میں یکم اگست سے چہرے کے مکمل نقاب پر پابندی پر عملدرآمد شروع ہو گیا ہے۔ کچھ دیگر یورپی ممالک پہلے ہی اسی طرح کے اقدامات اٹھا چکے ہیں۔ کیا آپ جانتے ہیں کہ کچھ مسلم ممالک نے بھی برقع پر پابندی عائد کر رکھی ہے۔
تصویر: Reuters/A. Kelly
چودہ برسوں کی طویل بحث
چودہ برسوں کی طویل بحث کے بعد آخر کار یکم اگست سن دو ہزار انیس سے ہالینڈ میں خواتین کے برقعے یا چہرے کے مکمل نقاب پر پابندی کے متنازعہ قانون پر عملدرآمد شروع ہو گیا۔ گزشتہ جون میں ڈچ قانون سازوں نے اس قانون کی منظوری دی تھی۔
تصویر: Getty Images/AFP/J. Lampen
فرانس، نقاب پر پابندی لگانے والا پہلا ملک
فرانس وہ پہلا یورپی ملک ہے جس نے عوامی مقامات پر خواتین کے برقعہ پہننے اور نقاب کرنے پر پابندی عائد کی تھی۔ پیرس حکومت نے یہ بین اپریل سن 2011 سے لگا رکھا ہے۔ اس پابندی سے پردہ کرنے والی قریب دو ہزار مسلم خواتین متاثر ہوئی تھیں۔
تصویر: dapd
بیلجیم میں بھی پردہ ممنوع
فرانس کے نقاب اور برقعے کی ممانعت کے صرف تین ماہ بعد جولائی سن 2011 میں بیلجیم نے بھی پردے کے ذریعے چہرہ چھپانے پر پابندی لگا دی۔ بیلجیم کے قانون میں چہرہ چھپانے والی خواتین کو نقد جرمانے سمیت سات دن تک قید کی سزا دی جا سکتی ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/B. Roessler
آسٹریا میں نقاب پر پابندی کے قانون کی منظوری
خواتین کے نقاب پر پابندی کا قانون آسٹریا میں سن 2017 اکتوبر میں منظور کیا گیا۔ اس قانون کی رُو سے عوامی مقامات میں چہرے کو واضح طور پر نظر آنا چاہیے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo
پردے پر پابندی بلغاریہ میں بھی لیکن استثنا کے ساتھ
ہالینڈ کی طرح بلغاریہ نے بھی چہرہ چھپانے پر پابندی سن 2016 میں عائد کی تھی۔ خلاف ورزی کرنے والی خاتون کو ساڑھے سات سو یورو تک کا جرمانہ بھرنا پڑ سکتا ہے۔ تاہم عبادت گاہوں، کھیل کے مقامات اور دفاتر میں اس پابندی سے استثنا حاصل ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/S. Sabawoon
ڈنمارک بھی
ڈنمارک میں چہرہ چھپانے اور برقعے پر پابندی یکم اگست سن 2018 سے نافذالعمل ہوئی۔ گزشتہ برس مئی میں ڈینش پارلیمان نے اس قانون کو اکثریت سے منظور کیا تھا۔ اس قانونی مسودے کی منظوری کے بعد ڈینش حکومت کی طرف سے کہا گیا تھا کہ اس پابندی کا ہدف کوئی مذہب نہیں ہے۔
تصویر: Grips Theater/David Balzer
شمالی افریقی ملک مراکش میں پابندی
مراکش نے2017 میں برقع یا چہرے کو مکمل طور پر ڈھانپنے والے ملبوسات کی پروڈکشن پر پابندی عائد کی تھی۔ اس مسلم اکثریتی ملک میں بھی اس پابندی کی وجہ سکیورٹی تحفظات بتائے گئے تھے۔ تب حکومت کا کہنا تھا کہ ڈاکو اپنی مجرمانہ کارروائیوں کے لیے پردے کو ہتھیار کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔ مقامی میڈیا نے رپورٹ کیا تھا کہ اس لباس پر بھی پابندی عائد کر دی گئی تھی لیکن حکومت کی طرف سے اس کی تصدیق نہیں کی گئی تھی۔
تصویر: picture alliance/blickwinkel/W. G. Allgoewer
چاڈ میں برقع پر پابندی
افریقی ملک چاڈ میں جون سن دو ہزار پندرہ میں ہوئے دوہرے خود کش حملوں کے بعد مکمل چہرے کے پردے پر پابندی عائد کر دی گئی تھی۔ تب حکومت نے کہا تھا کہ شدت پسند تنظیم بوکو حرام کے جنگجوؤں نے ان حملوں کو کامیاب بنانے کے لیے پردے کو بہانہ بنایا تھا۔ اس ملک کی پچاس فیصد سے زائد آبادی مسلمان ہے۔
تصویر: AFP/Getty Images
تیونس میں سکیورٹی تحفظات
تیونس میں جون سن دو ہزار انیس میں ہوئے دہشت گردانہ حملوں کے بعد ملکی صدر نے چہرے کو مکمل طور پر ڈھاانپنے پر پابندی عائد کر دی تھی۔ اس مسلم ملک میں اس پابندی کی وجہ سکیورٹی تحفظات بنے تھے۔
تصویر: Taieb Kadri
تاجکستان، کچھ چھپانے کی ضرورت نہیں
وسطی ایشیائی ملک تاجکستان میں ستمبر سن دو ہزار سترہ میں پہلے سے موجود ایک قانون میں ترمیم کے ذریعے مقامی ملبوسات کو فروغ دینے پر زور دیا گیا تھا۔ اس مسلم اکثریتی ملک میں اس قانون کے تحت چہرے کا مکمل پردہ یا برقع ممنوع قرار دے دیا گیا تھا۔ تاہم اس قانون کی خلاف ورزی پر کوئی سزا یا جرمانہ نہیں رکھا گیا تھا۔