1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

رام مندر کا افتتاح: بھارتی مسلمان کیا سوچتے ہیں؟

جاوید اختر، نئی دہلی
10 جنوری 2024

بھارتی مسلمانوں کا خیال ہے کہ ایودھیا میں رام مندر کا افتتاح کوئی مذہبی تقریب نہیں بلکہ بی جے پی کا سیاسی پروگرام ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ بھارت کے انصاف پسند عوام کے اعتماد کو مجروح کرنے کا باعث بھی بن سکتا ہے۔

رام مندر کے افتتاح کے موقع پر ایودھیا کودلہن کی طرح سجایا جارہا ہے
رام مندر کے افتتاح کے موقع پر ایودھیا کودلہن کی طرح سجایا جارہا ہےتصویر: Reuters/P. Kumar

ایودھیا میں رام مندر کے افتتاح کی تاریخ جیسے جیسے قریب آتی جارہی ہے بھارت میں مسلمانوں میں اضطراب بڑھتا جا رہا ہے۔ اس درمیان اہم مسلم مذہبی اور سماجی رہنماوں نے ایک مشترکہ بیان جاری کرکے مسلمانوں اور ملک کے عوام سے اپیل کی ہے کہ وہ امن و امان کی برقراری کی ہر ممکن کوشش کریں۔ انہوں نے مرکزی اور ریاستی حکومتوں سے بھی صورت حال پر سخت نگاہ رکھنے کی اپیل کی ہے۔

رام مندر کے افتتاح کی تیاریاں زوروں پر ہیں۔ خود وزیر اعظم نریندر مودی اس میں ذاتی دلچسپی لے رہے ہیں۔ انہوں نے ہندووں سے 22 جنوری کو ملک بھر کے مندروں میں خصوصی پوجا اور دیگر تقاریب کا اہتمام کرنے کی اپیل کی ہے۔ انہوں نے ہندووں سے اس دن  اپنے اپنے گھروں پر بھی 'بھگوان رام' کو یاد کرنے پر زور دیا ہے۔

بھارتی مسلمانوں کے رہنماوں نے اس صورت حال پر فکرمندی کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ "رام مندر سے متعلق مجوزہ تقاریب کو سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کرنے کی کوششیں تشویش کا باعث ہیں۔"

بھارت: ہندو قوم پرستی کی بھینٹ چڑھتا قدیم تہذیبی و ثقافتی ورثہ

ان کا مزید کہنا ہے کہ "عین عام انتخابات کے قریب ملک بھر میں جس طرح تقاریب منعقد کی جارہی ہیں اور جس بڑے پیمانے پر ان کو سرکاری سرپرستی فراہم کی جارہی ہے، وہ نہ صرف ملک کے سیکولر دستور کے خلاف ہے بلکہ منصفانہ انتخابات کی روح سے بھی متصادم ہے۔"

صدیوں پرانی بابری مسجد کو ہندو شدت پسندوں نے چھ دسمبر1992 کو منہدم کردیا تھاتصویر: Barbara Walton/AP Photo/picture alliance

'مندر کا افتتاح سیاسی مقاصد کے لیے نہیں ہونا چاہئے'

مسلم رہنما اور جماعت اسلامی ہند کے نائب صدر انجینئر محمد سلیم کا کہنا تھا کہ اس پروگرام کا استعمال سیاسی مقاصد اور پولرائزیشن کے لیے نہیں ہونا چاہئے۔

 محمد سلیم نے ڈی ڈبلیو اردو سے خصوصی بات کرتے ہوئے کہا کہ "ایسا لگ رہا ہے کہ رام مندر کا افتتاح بی جے پی کا انتخابی پروگرام اور وزیر اعظم کی سیاسی ریلی میں بدل گیا ہے۔" انہوں نے مزید کہا کہ "رام مندر کی مجلس منتظمہ کے جنرل سکریٹری نے مندر کی افتتاحی تقریب کا موازنہ یوم آزادی سے کر دیا ہے، جو کہ غلط اور تکلیف دہ ہے اور یہ بیان ملک کو مذہبی بنیاد پر تقسیم کرنے والا ہے۔"

بھگوان رام کے بُت کو سردی سے بچانے کے لیے کمبل اور ہیٹر کا انتظام

اس دوران آر ایس ایس لیڈر اندریش کمار نے مسلمانوں سے اپیل کی ہے کہ وہ ایودھیا میں تعمیر ہو نے والے رام کے مندر کے افتتاح کا دن شان و شوکت کے ساتھ منائیں اور جب ایودھیا میں رام کی مورتی نصب کی جائے تو درگاہوں، مدرسوں، مکتبوں اور مسجدوں میں اپنے مذاہب کے مطابق ملک کی ترقی، خوشحالی اور ہم آہنگی کے لیے دعا کریں۔

انجینئرمحمد سلیم کا کہنا ہے کہ بھارت میں آئینی طورپر ہر شخص کو اپنے اعتقاد کے مطابق مذہب پرعمل کرنے کا حق ہے اور کسی کو دوسرے مذہب کے رسوم و رواج پر عمل کرنے کے لیے مجبور نہیں کیا جاسکتا۔

وزیر اعظم مودی مندر کی افتتاحی تقریب میں مہمان خصوصی ہوں گےتصویر: AFP/P. Singh

'مسلمان الرٹ رہیں'

مسلم رہنماوں نے مسلمانوں سے کہا کہ وہ ان حالات کے باوجود مایوس نہ ہوں اور نہ ہی صبر و تحمل کا دامن ہاتھ سے چھوڑیں۔

اسلامی امور کے ماہر اور مولانا آزاد یونیورسٹی جودھ پور کے سابق وائس چانسلر اخترالواسع نے ڈی ڈبلیو اردو سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ "ہمیں ان حالات میں اشتعال انگیزی کی کوششوں کو یکسر مسترد کردینا چاہئے اور مسلمانوں کو سوشل میڈیا پر بھی غیر ضروری بیانات اور تبصروں سے گریز کرنا چاہئے۔ "

رام کے نام پر فریب، جو مسلسل جاری ہے

پروفیسر اخترالواسع نے کہا کہ فرقہ پرست عناصر اس موقع کو ملک کا ماحول خراب کرنے کے لیے استعمال کرسکتے ہیں، ایسے میں مسلمانوں کوالرٹ بھی رہنا چاہئے۔

آسام سے رکن پارلیمان بدرالدین اجمل نے مسلمانوں سے بیس سے چھبیس جنوری کے درمیان گھروں میں رہنے اور ٹرینوں، بسوں یا کاروں سے سفر نہ کرنے کا مشورہ دیا ہے۔

بعض ہندوں کا دعوی ہے کہ بنارس کی گیان واپی مسجد مندر توڑ کر بنائی گئی تھیتصویر: DW

'سپریم کورٹ کے فیصلے سے مطمئن نہیں'

بھارتی مسلمانوں کے ملی قائدین نے اپنے مشترکہ بیان میں کہا کہ وہ اس بات کا اعادہ کرنا ضروری سمجھتے ہیں کہ بابری مسجد سے متعلق سپریم کورٹ کے فیصلے سے مسلمان مطمئن نہیں ہیں۔ کیونکہ عدالت نے اس بات کو تسلیم کیا ہے کہ اس بات کی کوئی شہادت موجود نہیں کہ بابری مسجد کسی مندر کو توڑ کر بنائی گئی تھی۔

ان کا کہنا ہے کہ عدالت نے یہ بھی تسلیم کیا تھا کہ بابری مسجد کا تالا توڑ کر اس میں مورتیاں رکھنے کا عمل اور پھر اس کی مسماری مجرمانہ کارروائی تھی۔ لیکن ان سب باتوں کے باوجود سپریم کورٹ نے ایک مخصوص فرقے کے مذہبی جذبات کا خیال رکھتے ہوئے وہاں مندر بنانے کی اجازت دے دی۔

مسجد یا مندر؟ تاریخی گیان واپی مسجد کے مستقبل کا فیصلہ

انجینئر محمد سلیم کا کہنا تھا کہ "بابری مسجد کے حوالے سے سپریم کورٹ نے جو حکم دیا ہے وہ ایک فیصلہ ہے، وہ انصاف نہیں ہے۔ اور مسلمان بھارتی شہری کے ناطے عدالت کے فیصلے کو تسلیم کرتے ہیں۔"

اس دوران مسلمانوں نے بعض ہندو شدت پسند رہنماوں کی جانب سے بھارت میں متعدد اہم مساجد کو بھی مندر میں تبدیل کرنے کے اقدامات پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔

رکن پارلیمان اسد الدین اویسی نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ "چھ دسمبر (جب بابری مسجد منہدم کی گئی) ایک حقیقت ہے اور ہم نہیں چاہیں گے کہ چھ دسمبر دوبارہ آئے۔ دودھ کا جلا چھاچھ بھی پھونک پھونک کر پیتا ہے۔"

بھارت: مسجد-مندر تنازعہ: کیا ایودھیا صرف ہندوؤں کا ہے؟

03:50

This browser does not support the video element.

 

 

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں