1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

رام مندر کے چندہ نہ دینے والوں کے گھروں پر بھی اسٹیکر

صلاح الدین زین ڈی ڈبلیو نیوز، نئی دہلی
16 فروری 2021

بھارت میں تاریخی بابری مسجد کے مقام پر رام مندر کی تعمیر کے لیے چندہ دینے والوں اور نہ دینے والوں کے گھروں پر الگ الگ نشانات لگائے جا رہے ہیں۔

Indien - Ayodhya
تصویر: DW/S. Mishra

بھارت میں آج کل سخت گیر ہندو تنظیموں کی جانب سے رام مندر کی تعمیر کے لیے چندہ جمع کرنے کی مہم زوروں پر ہے، جس کے لیے اب تک ڈیڑھ ہزار کروڑ سے بھی زیادہ روپے جمع کیے جا چکے ہیں۔ لیکن متعدد حلقوں کی جانب سے یہ شکایت سامنے آ رہی ہیں کہ چندہ جمع کرنے والی سخت گیر ہندو تنظیمیں چندہ دینے والوں کے گھروں کے باہر ایک اسٹیکر چسپاں کر رہی ہیں اور اس کی مدد سے چندہ نہ دینے والوں کے گھر کو بھی نشان زد کیا جا رہا  ہے۔

اس حوالے سے بھارتی میڈیا میں گزشتہ کئی روز سے خبریں گردش کر رہی رہیں تاہم جنوبی ریاست کرناٹک کے سابق وزیر اعلی ایس کمارا سوامی نے منگل 16 فروری کو جب اس پر گہری تشویش کا اظہار کرتے ہوئے اسے ’’نازی جرمنی‘‘ سے تعبیر کیا تو اس پر بحث چھڑ گئی۔

انہوں نے اپنی ایک ٹویٹ میں لکھا،’’بظاہر جو لوگ رام مندر کی تعمیر کے لیے فنڈز جمع کر رہے ہیں، وہ ان لوگوں کے مکانات پر علحیدہ نشان لگا رہے ہیں، جو مندر کے لیے رقم پیش کرتے ہیں اور ان کے گھروں پر الگ جو چندہ نہیں دیتے۔ یہ بالکل اسی طرح کا کام ہے جیسے نازیوں نے ہٹلر کے دور میں جرمنی میں کیا تھا، جب لاکھوں افراد کی جان چلی گئی تھی۔‘‘

گرچہ رام مندر کی تعمیر کے لیے درجنوں سخت گیر ہندو تنظیمیں سرگرم ہیں تاہم کمارا سوامی نے اس حرکت  کے لیے حکمراں جماعت بی جے پی کی حلیف سخت گیر ہندو تنظیم آر ایس ایس کو ذمہ دار ٹھہراتے ہوئے کہا کہ اس طرح کے کارروائیوں سے آخر ملک کا حال کیا ہوگا۔

تصویر: DW/S. Mishra

انہوں نے بعض مورخین کا حوالہ دیتے ہوئے اپنی ایک اور پوسٹ میں کہا کہ آر ایس ایس کی بنیاد بھی جرمنی کی نازی پارٹی کے وقت ہی رکھی گئی تھی،’’اس بات پر کافی تشویش ہے کہ اگر آر ایس ایس نے بھی نازیوں کی پالیسیوں پر عمل کیا تو پھر مستقبل کیا ہوگا۔ آج کل تو ملک میں لوگوں کے بنیادی حقوق ہی چھینےجا رہے ہیں۔‘‘

انہوں نے اپنی ایک اور ٹویٹ میں لکھا کہ اس وقت ملک میں غیر اعلانیہ ایمرجنسی نافذ ہے اور بھارتی میڈیا پوری طرح سے حکومت کے موقف کو ہی صحیح بنا کر پیش کرتا ہے اس صورت حال میں اس بات کا تصور بھی مشکل ہے کہ پھر عام آدمی کا کیا ہوگا۔

اسٹیکر کیا ہے؟

بھارتی میڈیا میں کافی عرصے سے رام مندر کے لیے چندہ دینے والوں کے گھروں کو نشان زد کرنے سے متعلق خبریں آتی رہی ہیں تاہم پہلی بار کسی بڑے رہنما نے اس بارے میں کھل کر بات کی ہے۔ کمارا سوامی کی ان ٹویٹس کے جواب میں جہاں بہت سے لوگوں نے اسٹیکر چسپاں کرنے کی تصدیق کی وہیں بعض نے اس کی تردید بھی ہے۔

میڈیا میں اس حوالے سے اسٹیکر کی جو تصویریں سامنے آئی ہیں اس میں بھگوان رام کی ایک تصویر کے ساتھ نیچے مقامی زبان میں نعرہ لکھا ہوا ہے،’’ملک کی تعمیر میں آپ کا اہم تعاون۔‘‘  ہندو تنظیموں کا اصرار ہے کہ وہ گھروں کی نشاندہی نہیں کر رہیں بلکہ اس لیے ایسا کر رہی ہیں تاکہ ان کے رضا کار دوبارہ چندے کے لیے ان گھروں پر نہ جائیں جو پہلے ہی دے چکے ہیں۔

بھارت ہندو راشٹر بننے کی راہ پر ہے، اسدالدین اویسی

02:43

This browser does not support the video element.

مندر کی تعمیر کی مہم 

بھارتی ریاست اتر پردیش کے ایودھیا میں رام مندر کی تعمیر کے لیے 14جنوری سے ملک گیر سطح پر چندہ مہم شروع کی گئی تھی۔ اس کے بعد سے ہی آر ایس ایس اور اس کی دیگر حلیف سخت گیر ہندو تنظیمیں شہر شہر قریہ قریہ فنڈز جمع کرنے کے مقصد سے لوگوں کے گھروں پر دستک دے رہی ہیں۔

ان تنظیموں کے مطابق اس کے ذریعے ڈیڑھ ہزار کروڑ روپے سے بھی زیادہ اب تک جمع کیے جا چکے ہیں اور اس ماہ کے اواخر تک اس مہم کو جاری رکھنے کا فیصلہ کیا گيا ہے۔ فنڈز جمع کرنے کی مہم میں شامل ہندو تنظیموں کا کہنا کہ اس مہم کے تحت کسی کو بھی چندہ دینے کے لیے مجبور نہیں کیا جا رہا اور جو اپنی رضا مندی سے پیسہ دینا چاہے وہ رام مندر کی تعمیر میں تعاون کر سکتا ہے۔

بابری مسجد رام مندر تنازعہ 

تاریخی بابری مسجد بھارت کی شمالی ریاست اترپردیش کے ضلع فیض آباد کے شہر ایودھیا میں  واقع ہوا کرتی تھی۔ لیکن سخت گیر ہندو تنظیموں نے سن 1992 میں چھ دسمبر کو اسے منہدم کر دیا تھا۔ اس دن بھارت کی مسلم تنظیمیں بطور احتجاج یوم سیاہ مناتی ہیں۔

ہندو تنظیمیں برسوں سے مسجد کی جگہ رام مندر تعمیر کرنے کے لیے مہم چلاتی رہی ہیں اور بھارتی سپریم کورٹ نے بھی سن 2019 میں اپنے ایک متنازعہ فیصلے میں اس مسجد کے مقام پر ہی رام مندر تعمیر کرنے کا فیصلہ سنایا تھا، جس کے بعد حکومت نے اس کی تعمیر کے لیے ایک ٹرسٹ قائم کیا۔

عدالت نے البتہ مسجد کی تعمیر کے لیے بھی کافی فاصلے پر کچھ زمین دی ہے تاہم تمام مسلم تنظیموں نے متفقہ طور پر اسے مسترد کر دیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اس زمین پر مسجد کی تعمیر سے مسلمانوں کا کوئی واسطہ نہیں ہے۔   

 بھارت میں بابری مسجد ہی کی طرح سینکڑوں ایسی تاریخی مساجد ہیں، جن پر ہندو تنظیمیں مختلف دعوے کرتی ہیں۔ کہیں ایسی مساجد بند کر دی گئی ہیں تو کسی پر کیس چل رہا ہے۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں
ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں