1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

رانا شمیم کے انکشافات، سیاسی ہلچل بھی اور سوالات بھی

عبدالستار، اسلام آباد
15 نومبر 2021

پاکستان میں گلگت بلتستان کی عدالت کے سابق جج رانا شمیم کے انکشافات سے ملک کے سیاسی اور عدالتی حلقوں میں ہلچل مچ گئی ہے۔ ان انکشافات کے حوالے سے ملک کے کئی حصوں میں سوالات بھی اٹھائے جا رہے ہیں۔

پاکستان کے سابق وزیر اعظم نواز شریف اپنی بیٹی مریم نواز کے ہمراہتصویر: Reuters/H. McKay

رانا شمیم نے ان انکشافات میں کہا تھا کہ وہ اس بات کے گواہ ہیں کہ ملکی سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس ثاقب نثار نے 2018 میں اسلام آباد ہائی کورٹ کے ایک جج کو یہ حکم دیا تھا کہ وہ 2018ء کے انتخابات سے قبل نواز شریف اور مریم نواز کو ضمانت پر رہا نہ کریں۔ رانا شمیم نے یہ انکشافات ایک مصدقہ حلفی بیان میں کیے۔

سینئر سیاستدان اور غیر اخلاقی ویڈیو، سیاسی حلقوں میں ہلچل

کچھ ناقدین ان انکشافات کے اس وقت منظر عام پر آنے کے حوالے سے سوالات اٹھا رہے ہیں تو کچھ اس کو پی ٹی آئی اور مقتدر قوتوں کے درمیان کشیدگی کے تناظر میں دیکھ رہے ہیں اور اسے تحریک انصاف کی موجودہ حکومت پر دباؤ ڈالنے کی کوشش قرار دے رہے ہیں، جو پہلے ہی اپنے اتحادیوں کے رویے سے نالاں ہے۔

ان انکشافات کے فوراﹰ بعد ملکی ذرائع ابلاغ پر وزیر اعظم عمران خان کے اس بیان کی تفصیلات سننے کو ملیں کہ مسلم لیگ ن کی یہ روایت رہی ہے کہ وہ ملکی اداروں کو بدنام کرتی ہے اور عدالتی کارروائی پر اثر انداز ہوتی ہے۔

سابق وزیر اعظم نواز شریف کی بیٹی مریم نواز شریف نے ان انکشافات پر اپنے ردعمل کا اظہار ایک ٹویٹ میں کیا، جس میں انہوں نے اپنے والد کی ایک تصویر لگائی اور ساتھ یہ بھی لکھا کہ اس سے ڈرنا چاہیے جو صبر کرے اور اپنا فیصلہ اللہ پر چھوڑ دے۔ اس میں ظالموں کے لیے بہت بڑا سبق ہے۔ اس کے علاوہ سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی اور سابق وزیر دفاع خواجہ آصف نے بھی ان انکشافات کے حوالے سے ایک دھواں دار پریس کانفرنس کی، جس سے یہ تاثر پیدا ہوا کہ ن لیگ ملک میں نئے انتخابات کا انعقاد چاہتی ہے۔

ایف اے ٹی ایف: پاکستان ابھی گرے لسٹ میں ہی رہے گا، ذرائع

توہین عدالت

اسلام آباد ہائی کورٹ نے ان انکشافات کے معاملے میں از خود نوٹس لیتے ہوئے ذاتی حیثیت میں رانا شمیم اور انصار عباسی کو کل منگل کی صبح طلب کر لیا ہے۔ چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ اطہر من اللہ کا کہنا تھا کہ کیوں نہ ہائی کورٹ کا وقار مجروح کرنے پر توہین عدالت کی کارروائی شروع کی جائے؟ زیرالتوا مقدمات میں اس طرح کی رپورٹنگ ہوگی تو یہ کوئی مناسب بات ہے۔  جسٹس اطہر من اللہ نے کہاکہ ان انکشافات کے ذریعے عدلیہ پر عوام کے اعتماد کو متزلزل کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔

مسلم لیگ ن کا موقف

مسلم لیگ ن کے رہنما اور سابق وزیر اطلاعات پرویز رشید کا کہنا تھا کہ وہ کوئی ایسی بات نہیں کرنا چاہتے، جو توہین عدالت کے زمرے میں آئے۔ تاہم وہ یہ ضرور کہیں گے کہ ماضی میں جو عدالتی فیصلے آئے، ان سے ظاہر ہوتا ہے کہ نواز شریف کے خلاف مقدمات میں ان سے امتیازی سلوک روا رکھا گیا۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''نواز شریف سے تو ان کے والد کا چالیس سالہ ریکارڈ بھی پوچھا گیا کہ کس طرح گلف اسٹیل مل لگی اور کس طرح وہ سعودی عرب پہنچی۔ لیکن عمران خان کے معاملے میں مشکوک منی ٹریل پر بھی بھروسہ کر لیا گیا، جس میں جمائمہ نے عمران خان کے فلیٹس کو بیچ کر پیسے عمران خان کے اکاؤنٹ میں نہیں بلکہ کسی تیسرے کے اکاؤنٹ میں بھیجے، جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ کسی بینک کا مینیجر تھا۔ جس بینک کی منی ٹریل آئی وہ بینک بھی اب بند ہو چکا تھا۔ اس کے علاوہ عمران خان کو بنی گالہ میں اضافی زمین پر قبضہ کرنے کے حوالے سے بھی رعایت دی گئی اور اس کے لیے کونسل کی طرف سے کمپیوٹرائزڈ سرٹیفیکیٹ بھی فراہم کیا گیا جبکہ کونسل کے افسران کا کہنا تھا کہ جب بنی گالہ میں یہ گھر بنا تھا تو اس وقت ریکارڈ کمپیوٹرائز ڈ تھا ہی نہیں۔‘‘

پاکستانی فوج کا تمسخر اڑانے کے خلاف قانونی بل، کئی حلقے مخالف

سابق چیف جسٹس ثاقب نثار  کی تردید

پاکستانی سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس ثاقب نثار نے ان الزامات کی پر زور تردید کی ہے اور دعویٰ کیا ہے کہ انہوں نے کبھی بھی اپنے ماتحت ججوں کو کسی بھی عدالتی فیصلے کے حوالے سے کوئی احکامات نہیں دیے۔ ان کا کہنا تھا کہ رانا شمیم نے اپنے دور ملازمت میں توسیع مانگی تھی، جو انہوں نے نہیں دی تھی۔ انہوں نے رانا شمیم کے دعووں کو جھوٹ قرار دیا اور کہا کہ ضروری نہیں کہ ہر جھوٹ کا جواب دیا جائے۔

حلف نامے کی پراسراریت

رانا شمیم کی طرف سے ایک حلف نامے میں کیے گئے ان انکشافات کے بعد پورے ملک میں ہلچل مچ گئی ہے لیکن ابھی تک یہ بات واضح نہیں کہ یہ حلف نامہ جمع کہاں کرایا گیا ہے اور یہ کس مقصد کے لیے تحریر کیا گیا۔ رانا شمیم نے پاکستان کے نجی ٹی وی چینل جیو نیوز کو بتایا، ''میں یہ نہیں بتا سکتا کہ یہ حلف نامہ کب تیار کیا گیا اور یہ کس کو دیا گیا لیکن میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر کی اعلیٰ عدالتیں پاکستانی سپریم کورٹ کے ماتحت نہیں ہیں۔‘‘

تاخیر سے جمع کرائے حلف نامے کی کوئی وقعت نہیں

ملک کے کئی حلقے  یہ سوال بھی کر رہے ہیں کہ اگر رانا شمیم کو اس بات کا علم برسوں پہلے ہوا تھا، تو وہ اتنا عرصہ خاموش کیوں رہے؟ انہوں نے اس بات کو صیغہ راز میں کیوں رکھا اور چیف جسٹس ثاقب نثار کے خلاف شکایت کے لیے قانونی طریقہ کار استعمال کیوں نہ کیا۔ اس حوالے سے معروف قانون دان شاہ خاور نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''جج صاحبان کے لیے کوڈ آف کنڈکٹ ہوتا ہے اور جب رانا شمیم کو اس بات کا علم ہوا تو بظاہر جسٹس ثاقب نثار نے کوڈ آف کنڈکٹ کی خلاف ورزی کی تھی۔ قانونی طریقہ یہ تھا کہ رانا شمیم سپریم جوڈیشل کونسل کو شکایت کرتے اور حلف نامہ درج کراتے اور چیف جسٹس کے خلاف آئین کے آرٹیکل 209 کے تحت کارروائی کا مطالبہ کرتے۔ لیکن انہوں نے یہ قانونی راستہ اختیار نہیں کیا اور اب حلف نامہ جمع کرایا۔ یہ بھی نہیں بتایا گیا کہ یہ حلف نامہ کہاں جمع کرایا گیا ہے۔ تو اس کی کوئی قانونی حیثیت ہے ہی نہیں۔‘‘

فضل الرحمٰن کا بیان: پنڈی کی خوشنودی حاصل کرنے کی کوشش قرار

نوازشریف کے قانونی آپشنز: اپیلوں میں وقت لگ سکتا ہے

شاہ خاور کا مزید کہنا تھا کہ ملکی آئین سپریم کورٹ اور ہائی کورٹس کو اس بات کا اختیار دیتا ہے کہ وہ توہین عدالت کے معاملات میں خود نوٹس لیں۔ ''اور اس حوالے سے اسلام آباد ہائی کورٹ نے نوٹس لے لیا ہے کیونکہ بظاہر اس حلف نامے نے اسلام آباد ہائی کورٹ کی ساکھ کو نقصان پہنچانے کی کوشش کی ہے اور یہ انکشافات ایک ایسے وقت پر سامنے آئے ہیں جب مریم نواز شریف کی درخواست پہلے ہی عدالت میں زیر سماعت ہے، جس میں انہوں نے آئی ایس آئی کے سربراہ سمیت کئی اعلیٰ شخصیات پر مختلف نوعیت کے الزامات لگائے ہیں۔‘‘

اپنے مرضی کے فیصلے

اس انکشافات کے حوالے سے حکمران پاکستان تحریک انصاف کا کہنا ہے کہ ن لیگ عدالتوں سے اپنی مرضی کے فیصلے لینا چاہتی ہے۔ پی ٹی آئی کے رکن قومی اسمبلی محمد اقبال خان آفریدی نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''عدالتوں پر دباؤ ڈالنا ن لیگ کا پرانا وطیرہ ہے۔ ماضی میں عدالتوں نے جب ان کے حق میں فیصلے نہ دیے، تو انہوں نے عدالتوں پر حملے کیے اور اب یہ ان انکشافات کے ذریعے عدالتوں سے اپنی مرضی کے فیصلے چاہتے ہیں لیکن یہ کامیاب نہیں ہوں گے۔‘‘

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں