راوالپنڈی خودکش حملہ، ہدف پھر سرکاری اہلکار
2 نومبر 2009اس سے پہلے فروری2008ء میں پاکستانی فوج کے سرجن جنرل مشتاق بیگ، آئی ایس آئی کے ملازمین کی بسوں اور 10 اکتوبر کو جنرل ہیڈکوارٹر پر حملے بھی اسی حساس علاقے میں ہوئے۔ تازہ ترین حملے کے بعد عام شہریوں میں عدم تحفظ کا احساس اور بھی بڑھ گیا ہے کیونکہ جنوبی وزیرستان میں7 اکتوبر کو فوجی آپریشن کے آغاز سے اب تک مختلف شہروں میں ہونے والے نصف درجن حملوں میں کم از کم 300 افراد لقمہ اجل بن چکے ہیں۔
راولپنڈی سے تعلق رکھنے والے سابق وفاقی وزیر شیخ رشید کے مطابق ایسا معلوم ہوتا ہے کہ راولپنڈی بھی اب دہشت گردوں کا خاص ہدف بن چکا ہے :’’جنوبی وزیرستان میں دہشت گرد اپنی موجودگی کا احساس دلاتے ہیں لیکن زیادہ تر اس علاقے سے نکل چکے ہیں اور ایسا معلوم ہوتا ہے، جیسے یہ پہلے سے طے ہو کہ اگر ہمیں اپنے علاقے چھوڑنے پڑے تو ہم شہروں کا رخ کریں گے۔ دہشت گردوں کو اپنا ہدف حاصل کرنے کے لئے سب سے آسان شہر پشاور اور راولپنڈی ہیں جہاں وہ آسانی سے اپنے مقاصد کو پایہ تکمیل تک پہنچا سکتے ہیں۔‘‘
دوسری طرف فوج کے ترجمان میجر جنرل اطہر عباس نے سوموار کے روز صحافیوں کو بتایا کہ جنوبی وزیرستان میں دہشت گردوں کا نیٹ ورک توڑ کر کنی گرام کے علاقے کو بھی ازبک جنگجوئوں سے پاک کر کے سرکاری عملداری قائم کر لی گئی ہے: ’’کنی گرام اب بالکل خالی اور محفوظ ہے فوج نے اس کا مکمل کنٹرول سنبھال رکھا ہے۔ یہاں پر دو اسلحہ ساز فیکٹریاں بھی ملی ہیں جن پر قبضہ کر کے صاف کیا جا رہا ہے اس کے ساتھ ساتھ اسلحے اور بارود سے بھرے پانچ ٹرک جنہیں دہشت گرد ملک کے دیگر حصوں میں لے جانا چاہتا تھے، قبضے میں لے کر ان کے عزائم کو ناکام بنا دیا گیا ہے۔‘‘
لیکن دہشت گردوں کے خلاف کامیابیوں کے سرکاری دعوؤں کے باوجود عسکریت پسند شہری اہداف پر حملوں کے ذریعے مسلسل یہ پیغام دے رہے ہیں کہ سوات ہو یا جنوبی وزیرستان ان کی وہاں سے پسپائی کا مقصد ان کی شکست نہیں اور یہ کہ وہ اپنے مقاصد کی تکمیل کےلئے مخصوص اہداف کو نشانہ بناتے رہیں گے۔
رپورٹ : امتیازگل، اسلام آباد
ادارت : عاطف توقیر