راولپنڈی: امام بارگاہ کے قریب خودکش حملہ، چار افراد ہلاک
18 دسمبر 2013![](https://static.dw.com/image/17002750_800.webp)
راولپنڈی کے مضافاتی علاقے گریسی لائن میں اثنا عشری امام بارگاہ کے قریب ہونے والے اس حملے کے نتیجے میں کم از کم 14 افراد زخمی بھی ہوئے ہیں۔ پاکستانی پولیس حکام کے مطابق خود کش حملہ آور ایک موٹر سائیکل پر سوار تھا۔ پولیس افسر اختر لالیکا کا نیوز ایجنسی اے ایف پی سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا، ’’حملہ آور نے خود کو اس وقت دھماکا خیز مواد سے اڑا لیا، جب پہلے چیک پوائنٹ پر اُسے روکا گیا۔‘‘
مقامی ميڈيا پر نشر کردہ رپورٹوں کے مطابق ہلاک ہونے والے چاروں افراد پوليس اہلکار تھے، جن میں ایک سب انسپکٹر بھی شامل ہے۔ پولیس کے مطابق حملہ آور امام بارگاہ میں داخل ہونا چاہتا تھا۔ دھماکے سے متعدد موٹر سائیکلوں، گاڑیوں اور قریبی دکانوں کو بھی شدید نقصانات پہنچے ہيں۔ ایک مقامی ہسپتال کے ايک ڈاکٹر آصف قدیر میر کا کہنا تھا، ’’ ہمارے پاس تین لاشیں جبکہ 14 زخمیوں کو لایا گیا ہے۔‘‘
فرقہ ورانہ حملوں میں اضافہ
گزشتہ ماہ عاشورہ کے موقع پر راولپنڈی میں ہی سُنی اور شیعہ مسلمانوں کے گروہوں کے درمیان پرتشدد جھڑپیں ہوئی تھیں، جن کے بعد سے پاکستان میں فرقہ وارانہ تشدد میں اضافہ ہوا ہے۔ سياسی تجزیہ کاروں کے مطابق یہ تازہ حملہ بھی نومبر میں ہونے والے پرتشدد واقعات کا ردعمل ہو سکتا ہے۔
گزشتہ اتوار کے روز صوبہ پنجاب کے مرکزی شہر لاہور میں شیعہ عالم علامہ ناصر عباس کو فائرنگ کرتے ہوئے ہلاک کر دیا گیا تھا۔ اس سے چند روز پہلے لاہور ہی میں ایک شعیہ مخالف سُنی گروپ کے رہنما شمس الرحمان معاویہ کو ہلاک کر دیا گیا تھا۔
یاد رہے کے نومبر میں راولپنڈی میں ہونے والے فرقہ وارانہ فسادات کے بعد انیس نومبر کو اسی شہر کی ايک یونیورسٹی کے ايک شیعہ سربراہ کو بھی قتل کر دیا گیا تھا۔ اسی طرح کا ایک واقعہ کراچی میں بھی پیش آیا تھا۔
پاکستان کی کل 180 ملين سے زائد کی آبادی کا اندازہﹰ 20 فيصد حصہ شيعہ مسلمانوں پر مشتمل ہے۔ رواں سال کے آغاز سے اب تک ملک کے مختلف حصوں ميں شيعہ عقیدے کے حامل شہریوں پر کیے جانے والے حملوں ميں سینکڑوں افراد ہلاک ہو چکے ہيں۔
تجزیہ نگاروں کے مطابق ملک میں عدم برداشت اور گروہ بندی کی حامی قوتوں کی جڑیں گہری ہوتی جا رہی ہیں اور یہی بات پاکستان کے داخلی امن و استحکام کے لیے ایک بڑا خطرہ ثابت ہو سکتی ہے۔