1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

راولپنڈی سانحہ، کراچی میں کشیدگی

رفعت سعید، کراچی22 نومبر 2013

پاکستان میں عرصہ دراز سے محرم الحرم کے دوران مسلمانوں کے دونوں فرقوں اکثریتی سنی اور اقلیتی شیعہ کے درمیان کشیدگی پائی جاتی ہے۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ نے صورت حال میں جلتی پر تیل کا کام کیا ہے۔

تصویر: Asif Hassan/AFP/Getty Images

گزشتہ دس برسوں میں پاکستان میں شیعہ اقلیت مذھبی انتہاپسندی کا بری طرح نشانہ بنی ہے۔ اس برس بھی محرم کے آغاز سے ہی ملک کے دیگر حصوں کی طرح کراچی میں بھی صورت حال کشیدہ ہوگئی تھی۔ مگر حکومت سندھ اور قانون نافذ کرنے والے اداروں نے کسی بھی ناخوشگوار واقعے کو روکنے کے لیے تمام تر وسائل جھونک دیے۔جس کا نتیجہ کامیابی کی صورت میں حاصل ہوا۔

تاہم عاشورہ محرم کو راولپنڈی میں مسجد اور مدرسے پر نماز جمعہ کے دوران حملے اور دس افراد کی ہلاکت نے ملک بھر کی طرح کراچی کی انتظامیہ کو بھی ایک نئی مشکل سے دوچار کردیا۔

ذرائع ابلاغ کی جانب سے راولپنڈی کے واقعے کو دانستہ طور پر غیر معمولی کوریج نہیں دی گئی۔ تاکہ سانحہ کے اثرات ملک کے دیگر حصوں پر نہ پڑیں۔ لیکن سوشل میڈیا پر جس انداز میں دو طرفہ نفرت آمیز مہمات چلائی گئیں، اس نے ذرائع ابلاغ کی کوشش کو کامیاب نہیں ہونے دیا۔

سانحہ راولپنڈی پر پاکستان کی مجموعی آباد کا نوے فیصد اہلسنت افراد غم و غصے سے دوچار ہیں اور اسی غم و غصے کے اظہار کے لیے مذھبی تنظیموں کی جانب سے سانحہ کے خلاف آج (بروز جمعہ) یوم احتجاج منانے کا اعلان کیا گیا تھا۔

کراچی میں گرومندرچورنگی پر اہلسنت کی جانب سے بڑا احتجاجی مظاہرہ کیا گیا۔ جس میں ہزاروں افراد نے شرکت کی۔ اس موقع پر اہلسنت والجماعت کے مرکزی رہنما علامہ اورنگزیب فاروقی نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ایسے جلوس جن سے انتشار پھیلنے کا خطرہ ہو حکومت قانون بنا کر ان پر پابندی لگائے۔ دوسری جانب اہل تشیع فرقے کے لوگ ان جلوسوں پر پابندی لگانے کی مخالفت کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ عزادار ان جلوسوں میں پیغام حسین کو عام کرنے نکلتے ہیں۔

کراچی میں حالات خاصے کشیدہ ہیںتصویر: AP

جامعہ بنوری کے مہتمم مفتی نعیم نے دیگر علما کےساتھ پریس کانفرنس کے دوران سانحہ راولپنڈی سے متعلق چند خوفناک حقائق بیان کرتے ہوئے حکومت کو متنبہ کیا کہ اکثریت کی امن پسندی کو کمزی تصور کرنے والے کام کھول کر سن لیں کہ اگر سانحے کے ذمہ داروں کو سزا نہ دی گئی تو ملک بھر میں مدارس کے طلبہ سڑکوں پر آجائیں گے۔

یہ صورت حال زیادہ کشیدہ اس لیے ہوئی کہ فقہ جعفریہ کے خلاف سخت موقف رکھنے والی اہلسنت والجماعت نے یوم احتجاج کے دوران نمائش چورنگی سے تبیت سنیٹر تک ریلی نکالنے کا اعلان کردیا۔

ساتھ ہی فقہ جعفریہ کی تمام تنظیموں نے بھی یوم عظمت نواسہ رسول کے حوالے سے مظاہرہ کا اعلان کردیا۔ اس کے بعد انتظامیہ کی نیندیں حرام ہوگئیں اور پولیس اور رینجرزکو چوکس کردیا گیا۔ موٹر سائیکل پر ڈبل سواری پر ایک دن کے لیے پابندی لگادی گئی اور حکومت نے یوم احتجاج کے حوالے سے خود اتنا شور مچایا کہ شہر پر خوف کے بادل چھاگئے۔ ہڑتال، اسکول ، مارکیٹیں اور پبلک ٹرانسپورٹ بند ہونے کی افواہوں نے شہریوں کو مزید خوف میں مبتلا کردیا۔

گورنر سندھ نے اہلسنت والجماعت کراچی کے امیر مولانا اورنگزیب فاروقی سے رابطہ کیا اور انہوں نے گورنر کی بات مانتے ہوئے ریلی کو گرومندر پر احتجاجی مظاہرے میں تبدیل کرنے کا اعلان کیا۔ مگر اس بار ماضی کے برخلاف ان کے لیے بھی سیکورٹی انتظامات کڑے رکھے گئے تھے۔

ایڈیشنل آئی جی کراچی شاہد حیات کا کہنا ہے کہ یوم احتجاج پر امن و امان برقرار رکھنے کے لیے تمام انتظامات مکمل ہیں۔ دس ہزار سے زائد پولیس اور رینجرز اہلکار حفاظتی ڈیٹیوں پر تعینات ہیں۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ اہلسنت والجماعت کی مشاورت سے مظاہرہ میں آنے والوں کے لیے روٹ طے کی گیا ہے، مگر گڑبڑ پھیلنے والوں سے کوئی نرمی نہیں برتی جائے گی۔

حکومتی اقدامات کے باوجود مذھبی رہنما سانحہ راولپنڈی کو انتظامیہ اور حکومت کی نااہلی اور ناکامی تصور کرتے ہیں۔ بعض رہنماوں کی رائے میں جب تک حکومت اس طرح کے واقعات میں ملوث عناصر کو کفر کردار تک نہیں پہنچاتی، مستقبل میں بھی ایسے واقعات رونما ہوتے رہیں گے۔

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں