1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ربانی کے قتل میں کوئٹہ شوریٰ کا ہاتھ تھا، افغان خفیہ ایجنسی

27 ستمبر 2011

افغانستان کی خفیہ ایجنسی کے مطابق سابق افغان صدر برہان الدین ربانی کے قتل کی تیاری افغانستان کے باہر کی گئی تھی۔ ایجنسی کا کہنا ہے کہ اس نے اس حوالے سے ایک اہم شخص کو گرفتار کیا ہے۔

سابق افغان صدر ربانی کے حامیوں نے منگل کے روز ایک ریلی بھی نکالیتصویر: DW

افغانستان کی خفیہ ایجنسی ’نیشنل ڈائریکٹوریٹ آف سکیورٹی‘ یا این ڈی ایس نے بتایا ہے کہ گزشتہ منگل کو کابل میں ہونے والے خود کش حملے کے ایک اہم ملزم کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔ اس حملے میں سابق افغان صدر اور افغان امن کونسل کے سربراہ برہان الدین ربانی ہلاک ہوئے تھے۔ ایجنسی کے مطابق گرفتار ہونے والے شخص سے معلوم ہوا ہے کہ ربانی کے قتل میں طالبان کی اعلیٰ قیادت ملوث تھی۔

ایجنسی کے نائب سربراہ، ضیاء کا، جنہیں زیادہ تر افغان ان کے پہلے نام سے ہی جانتے ہیں، کہنا ہے، ’’بالآخر ہم جان گئے ہیں کہ منصوبے (ربانی کا قتل) کی تیاری کہاں کی گئی تھی اور اس کو کس طرح پایہ تکمیل تک پہنچایا گیا۔ اس کی تفصیلات ہم جلد ہی عوام کو بتائیں گے۔‘‘ انہوں نے اس بات کا انکشاف پیر کے روز جلدی میں بلائی گئی ایک پریس کانفرنس میں کیا۔

ربانی کے قتل کی تفتیش کے دائرے کو پھیلایا جائے، این ڈی ایستصویر: dapd

ضیاء نے واضح طور پر کوئٹہ شوریٰ کا نام لیا، جو ان کے مطابق ربانی کے قتل میں ملوث ہو سکتی ہے۔ انہوں نے افغان صدر حامد کرزئی کو مشورہ دیا کہ وہ ربانی کے قتل کی تحقیقات میں افغانستان کی سرحدی حدود سے باہر کے علاقوں کو بھی شامل کریں۔

خیال رہے کہ ربانی کے قتل کے چند گھنٹوں بعد ہی طالبان نے خبر رساں ادارے روئٹرز کے پاکستان میں ایک رپورٹر سے بات کرتے ہوئے اس واقعے کی ذمہ داری قبول کر لی تھی، تاہم طالبان نے بعد ازاں اس کی تردید کرتے ہوئے یہ ذمہ داری قبول کرنے سے انکار کر دیا تھا۔  واضح رہے کہ افغان حکومت اور امریکہ سمیت دیگر مغربی ممالک کے اعلیٰ حکام پاکستانی صوبے بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ میں طالبان کی اعلیٰ قیادت، بشمول ملا عمر کی موجودگی کا دعویٰ کرتے رہتے ہیں۔ پاکستانی حکومت اس کی تردید کرتی ہے۔ دوسری جانب چند ہفتوں قبل کابل میں امریکی سفارت خانے پر حملے کی ذمہ داری بھی امریکی حکام نے واضح طور پر حقانی گروپ پر عائد کی ہے اور پاکستانی خفیہ ادارے آئی ایس آئی کو اس میں ملوث قرار دیا ہے۔ مبصرین کے مطابق اب برہان الدین ربانی کے قتل کے تانے بانے مبینہ طور پر پاکستان میں تلاش کیے جانے کے باعث پاکستانی حکومت پر دباؤ میں مزید اضافہ ہو سکتا ہے۔

رپورٹ: شامل شمس⁄  خبر رساں ادارے

ادارت: افسر اعوان

 

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں
ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں