1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

رجز پڑھتی عورتیں، فہمیدہ ریاض اور سولہ دن کا ایکٹیوزم

1 دسمبر 2020

پاکستان میں خواتین کے حقوق کے تحفظ کی بحث کئی رخی ہے۔تاہم اہم سوال یہ ہے کہ ’ایلیٹ بیگمات‘ کی تحریک، کیا متاثرہ خواتین اور ان کے سماجی و گھریلو مسائل سے واقف بھی ہے؟

DW-Urdu Blogerin Nida Jaffri
تصویر: Privat

سن 1991 سے دُنیا بھر کے 187 مُمالک میں 'سولہ دن کے ایکٹوزم‘ نامی ایک تحریک چلتی ہے ، جو پچیس نومبر (خواتین کے خلاف صنفی امتیاز اورعدم تشدد کے عالمی دن ) کو شروع ہوتی ہے اور دس دسمبر  (انسانی حقوق کے عالمی دن) تک جاری رہتی ہے۔ اس تحریک کی بنیاد عالمی حقوق ِ نسواں کی قیادت نے ڈالی تھی۔ اس کا بنیادی مقصد خواتین کے خلاف صنفی امتیاز اور تشدد کے خلاف آگاہی بیدار کرنا  ہے۔

اِس سال مختلف بات یہ ہے کہ  کورونا کی عالمی وبا اور لاک ڈاؤن کے  نتیجے میں خواتین میں تشدد کے واقعات نسبتاً کہیں زیادہ رپورٹ ہوئے ہیں۔ پاکستان میں ابھی اِس تحریک سے متعلق زیادہ آگاہی موجود نہیں ہے اور خواتین سے متعلق این جی اوز اور تحریکوں کو عوام کا ایک بڑا حصہ قابلِ اعتبار بھی نہیں سمجھتا۔

پاکستان میں کچھ سالوں سے عورت مارچ شروع ہوا توعوامی حلقے دو مختلف حصوں میں بٹ گئے۔ ایک وہ جو عورت مارچ کے حق میں ہیں اور دوسرے وہ جو اِس کو 'یہودی سازش‘  یا بیرونی ایجنڈا کہہ کر لعنت ملامت کرتے پائے جاتے ہیں۔

یہ بھی پڑھیے: ریاست کا عورت سے نامحرم جیسا فاصلہ 

اس میں زیادہ تکلیف دہ بات یہ ہے کہ دونوں گروہ اپنے اپنے نظریے میں انتہا پسند ہیں اور مل بیٹھ کر کوئی  بات یا درمیانی  راہ نکالنے پر راضی ہی نہیں، جس کی وجہ سے وہی عورتیں متاثر ہوتی ہیں جن کے حق میں دونوں طرف سے بلند وبانگ دعوے سننے کو ملتے ہیں۔

ایک گروہ کہتا ہے کہ عورت کو اتنے عرصے بعد آزادی ملی ہے تو اُس کے پلے کارڈز پر لکھے بے باک نعرے تمام زیادتیوں کا ردِعمل ہیں۔  می ٹُو کی تحریک پہ سوال اس لیے اُٹھتے ہیں کہ مُلزم اگر کوئی ہائی پروفائل  ہستی ہے تو اُس کے خلاف احتجاج  اور ٹرینڈ چلیں گے پر اگر متاثرہ کوئی  غریب ہے تو مکمل خاموشی طاری رہتی ہے۔

فلاحی تنظیموں کے مشکوک ہونے کی وجہ مُسرت مصباح جیسی بارسوخ خواتین کی مبینہ مالی بے ضابطگیوں کے وہ سکینڈلز بنے، جو وہ تیزاب گردی کی متاثرہ خواتین کے نام پر وصول کرکے مشتبہ طور پر اپنے ذاتی مفادات میں استعمال کرتی رہیں۔

اور پھر جن خواتین کو عورت مارچ سے قبل مین اسٹریم میڈیا پر ٹاک شوز میں متوسط اور نچلے طبقے کی نمائندگی کے لیے مدعو کیا جاتا ہے، وہ ایسا لب و لہجہ استعمال کرتی ہیں، جس کی وجہ سے ان کے مخالفین کو عورتوں کی تمام تحریکوں اور تنظیموں کو بُرا بھلا کہنے کا موقع مِل جاتا ہے۔

میرے خیال میں ایسی خواتین نہ تو سماجی اور گھریلو مسائل کا شکار عام عورتوں کی نمائندہ ہوتی ہیں اور نہ ہی ان کے وہ مسائل ہوتے ہیں۔

یہ بھی پڑھیے: کیا صرف عورت کو ہی تربیت درکار ہے؟

اب آئیں، دوسرے گروہ کی طرف جو مسلسل پہلے گروہ کی مخالفت میں ہر حد تک جانے کو تیار ہے، پر اِس کے ساتھ ساتھ اِس بات کا دعویدار  بھی ہے کہ خواتین کو اِس معاشرے میں ہر قسم کے حقوق حاصل ہیں،  پہلا گروہ کم از کم اِس حوالے سے تو آگاہ ہے کہ خواتین کے معاملے میں ہم بے انصافی کے مرتکب ہیں اور اس کی نشاندہی  کے لیے  وہ باہر بھی آتا ہے چاہے احتجاج کا طریقہ کسی کو پسند ہو یا نہ ہو۔

دوسرا گروہ تو سِرے سے سماج میں اِس ناسور کی موجودگی سے انکاری ہے اور سونے پہ سہاگہ جہاں کسی کو اس معاملے پر چُپ کروانا ہو وہاں مذہب کا چُورن بیچ کر اِس بات کا یقین دلایا جاتا ہے کہ سامنے والا اب اسلامی قوانین کے تقدس میں کبھی دوبارہ آواز نہیں نکالے گا۔

کیا اُن کے دعوے کے مطابق یہ اسلامی معاشرہ ہے؟  مسلم خاندان کی بنیادی اکائی نکاح سے بنتی ہے اور یہاں لڑکی نہ تو نکاح نامے میں موجود اپنے حقوق سے آگاہ ہوتی ہے نہ کوئی اُس کی مرضی  پوچھنے کا روادار ہوتا ہے۔ نبھ جائے  تو سب ٹھیک اور نہ نبھ سکے تو 'خُدا کو یہی منظور تھا‘ کہہ دیا جاتا ہے۔

کم عمری کی جبری شادیوں کو بھی مذہبی روایات سے نہایت فخر سے جوڑ کر داد وصول کی جاتی ہے۔ تعلیم اور وراثت کے معاملے میں بھی بیٹے اور بیٹی کے درمیان ایک واضح فرق موجود رہتا ہے جبکہ شادی پر جہیز دے کر وراثت والا معاملہ سمیٹ لیا جاتا ہے۔

ایک سے زائد  شادیاں یاد رہتی ہیں پر نان نفقہ اور اولاد کے معاملات میں عدل و انصاف سے چشم پوشی کی مثالیں زمانے میں عام ہیں۔ ہمارے اردگرد اب بھی 'ونی‘ اور 'سوّورا‘ جیسی فرسودہ  رسمیں موجود ہیں، جہاں کسی قتل کے بدلے قاتل کے خاندان کی کم سن لڑکی مظلوم کے ہاں بیاہ دی جاتی ہے۔

بیٹیوں  کے قرآن سے نکاح پڑھائے جانے والی کہانیاں بھی کب پرانی ہوئی ہیں اور ظلم یہ ہے کہ اس سب کو مذہب کے لبادے میں اوڑھ کر بیچا جاتا ہے، یہاں تک کے جسمانی تشدد کو بھی شوہر کا حق کہہ کر اسے جائز قرار دیا جاتا ہے۔

یہ بھی پڑھیے: خواتین کی برابری صرف ووٹوں تک محدود کیوں

ایسی کئی مثالیں بھی ملتی ہیں کہ ذہین لڑکیاں سالوں محنت کرکے ڈاکٹر بنتی ہیں اور شادی کے بعد گول روٹی کے چکر میں گھر بٹھا لی جاتی ہیں۔

پہ در پہ بیٹیوں کی پیدائش  ہو،  مشترکہ خاندانی نظام کی اعصاب شکن روایتوں میں جکڑی عورت کی کہانی ہو یا ہر آئے دن مذہبی اقلیتوں کی بیٹیوں کے اغوا، جبری مذہبی تبدیلی کا معاملہ ہو، یہ خاص گروہ یا تو چُپ رہے گا یا بولنا پڑے تو عورت کو مورد ِالزام ٹھہرا کر ایسے ایسے مذہبی حوالوں سے زبان بندی کرے گا، جن کا ان مسائل  سے کوئی تعلق ہی نہیں بنتا۔

اسلام میں بیٹی کی تعلیم،  شادی یا نکاح میں رضامندی، وراثت کے معاملات اور طلاق، خلع یا بیوگی کے متعلق کتنے احکامات ہیں، وہ ہم یکسر بھول جاتے ہیں، تب یہ بھی نہیں یاد رہتا کہ بی بی بی خدیجہ عرب میں اپنی تجارت اور کاروبار کی وجہ سے 'ملیکتہ العرب‘  کے نام سے جانی جاتی تھیں اور وہ اُس، دور میں بھی اتنی خودمختار تھیں کہ اپنی مرضی سے پیغمبر اسلام کی طرف عقد کا پیغام بھجوایا تھا۔

کیا پاکستان میں آج کوئی اپنی بیٹیوں کو اس قدر خودمختاری  دے سکتا ہے؟ یا اُس طرح کا اسلام آج اس خطے میں پنپ سکتا ہے کہ عورت اپنے نکاح یا طلاق کے معاملوں کی مالک و مختار بھی خود ہو ؟ 

یہ بھی پڑھیے:جسم وزیراں کا لیکن مرضی ’غیرت مندوں‘ کی

اِس منافقانہ خلیج میں ضائع ہوتے اُن سولہ دنوں کو دیکھ رہی ہوں، جہاں دنیا بھر میں خواتین کو جسمانی،  معاشی اور نفسیاتی تحفظ دینے کے لیے نہ جانے کتنے ہی قسم کے کام کیے جارہے ہیں، اِسی سوچ میں گُم سم کیلنڈر میں لکھی 21نومبر کی تاریخ پر پڑتی ہے تو ایک رجز پڑھتی عورت فہمیدہ ریاض روشنی کے استعارے کے طور پر یاد آتی ہے۔

یوں کچھ تسلی ہوتی ہے کہ ابھی کچھ عورتیں ابھی بھی ایسی ہیں جو سنگ باری  کا ہر پتھر اُٹھا کر اپنی ذات کی تعمیر کرتی ہیں۔ پلے کارڈ  نہ بھی ہو، کسی کو بُرا نہ بھی کہیں،کسی سے برابری نہ بھی مانگیں، لیکن اِس ہجوم سے الگ خاموش نگاہوں سے رجز پڑھتے ہوئے پانی کی طرح اپنا راستہ خود بناتی جاتی ہیں۔

 

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں
ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں