بدعنوانی، تمام ایشیائی ممالک میں بھارت پہلے نمبر پر اور پاکستان صرف چوتھے نمبر پر ہے۔
اشتہار
امریکی جریدے فوربز کی رپورٹ کے مطابق دنیا کے کرپٹ ممالک کی فہرست جاری کی گئی ہے۔ اس فہرست کے مطابق 69 فیصد رشوت کی شرح کے ساتھ بھارت تمام ایشیائی ممالک میں پہلے نمبر پر ہے۔
رشوت ستانی کے معاملات پر تیارکردہ رپورٹ میں ویتنام 65 فیصد رشوت کی شرح کے ساتھ دوسرے نمبر پر ہے۔ 41 فیصد رشوت کی شرح کے ساتھ تھائی لینڈ تیسرے نمبر پر ہے۔ جبکہ 40 فیصد شرح کے ساتھ پاکستان کا نمبر چوتھا ہے اور میانمار بھی 40 فیصد شرح کے ساتھ پانچویں نمبر پر موجود ہے۔
رشوت ستانی ہی سے متعلق ایک تازہ واقعے میں بھارتی ریاست تلنگانہ کے کریم نگر ضلع میں ایک نوجوان نے سرکاری دفترکے باہر خود کو آگ لگالی ہے۔
حکام کے مطابق جھلس جانے والے شخص کی شناخت سری نواس کے نام سے ہوئی، جس کی عمر پچیس سال ہے اور وہ دلت ذات سے تعلق رکھتا ہے۔ نوجوان گزشتہ روز سرکاری دفتر میں اپنی ایک درخواست جمع کروانےگیا تھا۔ جس میں اپیل کی گئی تھی کہ سرکار کی جانب سے کسانوں کوجو زمین دی گئی ہے، وہ جلد ان کے حوالے کی جائے۔ لیکن افسران کی جانب سے بیس ہزار روپے بہ طور رشوت مانگنے پر نوجوان نے دل برداشتہ ہو کر خود پر تیل چھڑک کر آگ لگا لی تھی۔
جمہوری دور کے ستر برس بعد بھی بھارت کے نوابی محل کی شان و شوکت برقرار
1944ء میں کئی شاہی مہمان ’عمید بھون محل‘ کی تقریب رونمائی میں شرکت کے لیے اکٹھے ہوئے تھے۔ پتھر سے تعمیر کیا گیا یہ شاہکار بھارت کے شمال مغربی شہر جودھ پور کی شان سمجھا جاتا یے۔
تصویر: Imago/Indiapicture
محل کا ایک حصہ ہوٹل ميں تبديل
سن 1944 کے تین سال بعد ہی بھارت برطانوی راج سے آزاد ہو گیا تھا۔ نتيجتاً ان نیم خودمختار نوابی ریاستوں کو ایک غیر یقینی مستقبل کا سامنا تھا۔ وقت کے ساتھ کئی شاہی خاندان ختم ہوگئے لیکن جس خاندان نے اس محل کو تعمیر کیا تھا وہ آج بھی جانا مانا خاندان ہے۔ اس خاندان نے محل کے ایک حصے کو ہوٹل ميں تبديل کر ديا ہے۔
تصویر: Imago/Indiapicture
عمارت کا نام مہاراجہ عمید سنگھ کے نام پر رکھا گیا
اس ہوٹل کے مینیجر مہر نواز آواری کا کہنا ہے،’’دنیا میں کتنے ایسے ہوٹل ہوں گے جہاں آپ کے قریب ہی مہاراجہ رہتا ہو۔ ہم اپنے مہمانوں کو ایسا محسوس کراتے ہیں جیسے کہ وہ بادشاہ یا ملکہ ہوں۔‘‘ اس شاندار عمارت کا نام مہاراجہ عمید سنگھ کے نام پر رکھا گیا تھا۔ یہ مارور راٹھور خاندان کے آخری بادشاہ تھے۔ اسی خاندان سے تعلق رکھنے والے قرنی سنگھ جاسول کا کہنا ہے کہ محل کی تعمیر کا آغاز سن 1929 میں شروع ہوا تھا۔
تصویر: Imago/imagebroker
بھارت میں 1971ء میں تمام شہریوں کو برابر قرار دے دیا گیا تھا
برطانوی راج سے آزادی حاصل کرنے کے بعد بھارت کی کئی نوابی ریاستوں نے جمہوری حکومت میں شمولیت اختیار کر لی تھی۔ ابتدائی طور پر انہوں نے اپنے عہدے، جائیداد اور کچھ حد تک خودمختاری اپنے پاس رکھی۔ تاہم 1971ء میں بھارتی آئین میں تبدیلی کی گئی جس کے تحت تمام شہریوں کو برابر قرار دیا گیا اور شاہی مراعات کو ختم کر دیا گیا۔ يوں ریاست کی جانب سے ايسی نوابی رياستوں کو پیسے ملنا بھی بند ہو گئے۔
تصویر: Imago/Xinhua
نوابی خاندان مشکل میں پڑ گئے تھے
مراعات ختم ہونے کے بعد اور اس بے یقینی کے ساتھ کہ وہ ایک عام شہری کی طرح کس طرح رہیں گے، کئی نوابی خاندان مشکل میں پڑ گئے تھے۔ جاسول کا کہنا ہے کہ ان نوابی خاندانوں کو جو محلات یا عمارتیں ملیں وہ ایک سفید ہاتھی کی مانند تھیں۔ ان کے پاس پیسہ نہیں تھا جس سے کہ وہ کوئی کاروبار شروع کر سکتے۔ لیکن جودھ پور کے سنگھ خاندان نے اپنی جائیداد کو اچھی طرح سنبھالا بھی اور اس کو بڑھايا بھی۔
تصویر: Imago/J. Kruse
جودھ پور شہر کی معیشت میں اس محل کا اہم کردار
مہاراجہ عمید سنگھ کا پوتا صرف چار برس کا تھا جب 1952ء میں اس کے والد کا انتقال ہو گیا۔ یہ بچہ عمید سنگھ محل اور دیگر خاندانی زمینوں کا اکلوتا وارث بن گیا۔ 1971 ء میں قانون میں تبدیلی کے بعد نوجوان سنگھ نے محل کے ایک حصے کو ہوٹل بنا دیا اور ایک حصے کو عوام کے لیے عجائب گھر بنا دیا۔ آج جودھ پور شہر کی معیشت میں اس محل کا اہم کردار ہے۔
تصویر: Imago/imagebroker
معاوضہ پانچ سو امریکی ڈالر سے لے کر بارہ ہزار امریکی ڈالر
محل میں ہی گاج سنگھ کا گھر بھی ہے اور 64 کمروں پر مشتمل ہوٹل بھی۔ اس ہوٹل میں ایک رات کی رہائش کا معاوضہ پانچ سو امریکی ڈالر سے لے کر بارہ ہزار امریکی ڈالر تک ہے۔
تصویر: Imago/imagebroker
ہزاروں مقامی افراد کو روزگار میسر
شاہی خاندان نے علاقے کی فلاح و بہبود کے لیے بھی کافی کام کیا ہے۔ پانی کے ذخائر بڑھانے کے علاوہ يہ خاندان تعلیمی اور ثقافتی فلاح و بہبود کا کام بھی کر رہا ہے۔ ان منصوبوں سے ہزاروں مقامی افراد کو روزگار ملا ہے۔
تصویر: Imago/Indiapicture
7 تصاویر1 | 7
مقامی پولیس افسر کارونکر راؤ نے بتا یا کہ سری نواس اور علاقے کے کچھ لوگ ایک سرکاری دفتر میں اپنی درخوست جمع کروانے گئے تھے جہاں کئی گھنٹے انتظار کے بعد انہیں کہا گیا کہ افسران بالا ان سے نہیں مل سکتے، جس پر غم اور غصے کے عالم میں اس نوجوان نے خودسوزی کر لی۔ اس کے ایک قریبی دوست نے بتایا، ’’میں نے اسے روکنے کی بہت کوشش کیلیکن کامیاب نہ ہو سکا۔‘‘ اس واقعے میں سری نواس کا ساٹھ فیصد جسم جھلس گیا تھا اور وہ اب ہسپتال میں زیرعلاج ہے۔
یاد رہےکہ ہندوستان کی ریاست 'آندھرا پردیش' سن 2014 میں باضابطہ طور پر 2 حصوں میں منقسم ہو گئی تھی جس کے بعد ملک کی 29 ویں اور سب سے چھوٹی ریاست 'تلنگانہ' وجود میں آئی تھی۔
مقامی میڈیا کے مطابق تلنگانہ ضلعی حکومت نےریاست کے قیام کے بعد 330،000 خاندانوں کو زمین مختص کرنے کی مہم کا آغازکیا تھا لیکن اب تک صرف پانچ ہزار افراد ہی کو زمینیں آلاٹ ہو سکی ہیں، جس کی بنیادی وجہ سرکاری اداروں میں بدعنوانی کی بڑھتی ہوئی شرح قرار دی جا رہی ہے۔
امریکی جریدے فوربز نے ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کو بہ طور حوالہ پیش کرتے ہوئےا اپنی رپورٹ میں بھارت کو ایشیا کا سب سے بد عنوان ملک قراردیا ہے۔