1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

رعشے کا سبب، امکاناً کیڑے مار اسپرے: قنطاس ہوائی کمپنی پر مقدمہ

عدنان اسحاق10 دسمبر 2013

آسٹریلوی فضائی کمپنی قنطاس کے ایک سابق اسٹیورڈ نے کینبرا حکومت کے خلاف مقدمہ دائر کرنے کا اعلان کیا ہے۔ بریٹ وولُس کی وکیل نے بتایا کہ ان کے موکل کو شبہ ہے کہ ان کے رعشہ یا پارکنسن کی بیماری کا ذمہ دار یہ فضائی ادارہ ہے۔

تصویر: picture-alliance/dpa

52 سالہ بریٹ وولس کے مطابق ایک خاص قسم کا کیڑے مار اسپرے ہے، جو قنطاس ایئر لائن میں استعمال کرنا لازمی ہے۔ ان کو شک ہے کہ اس اسپرے کی وجہ سے ہی وہ رعشے کے مریض بنے ہیں۔ بریٹ 27 برس تک قنطاس میں بطور اسٹیورڈ کام کرتے رہے اور اس بیماری کی وجہ سے انہیں مئی میں ملازمت سے الگ ہونا پڑا۔ اس سلسلے میں انہوں نے وکیل تانیا سگالوف کی خدمات حاص کی ہیں۔ ابھی حال ہی میں سڈنی کے اعصابی نظام کے ماہرین نے بریٹ وولس میں اس مرض کی نشاندہی کی تھی۔

ان کی وکیل سیگالوف کے بقول ان کے موکل کے خاندان میں کوئی بھی پارکنسن کا مریض نہیں رہا۔ انہوں نے بتایا کہ طب میں کیڑے مار اسپرے کا رعشہ اور دیگر اعصابی بیماریوں سے تعلق بنتا ہے۔ پارکنسن یا رعشہ ایک اعصابی مرض ہے اور اس کی وجہ سے انگلیوں اور ہاتھ میں لرزہ یا کپکپاہٹ پیدا ہو جاتی ہے۔ اس کے علاوہ دیگر جسمانی حرکات و سکنات بھی بتدریج متاثر ہونے لگتی ہیں۔

ساری دنیا میں مختلف شعبوں میں کیڑے مار اسپرے متعارف کروائے جا چکے ہیںتصویر: AP

بتایا گیا ہے کہ عالمی ادارہ صحت نے مسافروں کو ملیریا اور کیڑے مکوڑوں سے جنم لینے والی اسی طرح کی دیگر بیماریوں سے محفوظ رکھنے کے لیےاس اسپرے کی تلقین کی تھی، جس کے بعد کینبرا حکومت نے دوران پرواز اسے چھڑکنے کو لازمی قرار دیا تھا۔ ایئر کرافٹ ڈس انفیکشن نامی یہ اسپرے 1920ء سے فضائی کمپنیاں استعمال کر رہی ہیں۔ آسٹریلیا کے محکمہ صحت نے کہا ہے کہ جراثیم سے پاک کرنے کا ان کا پروگرام عالمی ادارہ صحت ڈبلیو ایچ او کے اصولوں کے عین مطابق ہے۔ مزید یہ کہ اس سلسلے میں جتنی بھی مصنوعات استعمال کی جاتی ہیں وہ بالکل محفوظ ہیں۔ آسٹریلوی محکمہ صحت کے ایک ترجمان نے بتایا کہ ڈبلیو ایچ او نے اس اسپرے کی جانچ پڑتال کی ہے اور اس ادارے کو اس تناظر میں کوئی بھی شواہد نہیں ملے۔ انہوں نے مزید کہا کہ اس اسپرے کے بغیر ملیریا اور زرد بخار کے انسداد کے لیے جاری مہم پر منفی اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔

وکیل سیگالوف کے بقول یہ مقدمہ ملکی اور بین الاقوامی سطح پر اثر انداز ہو گا۔ ان کے بقول یہ معاملہ صرف آسٹریلیا کا ہی نہیں ہے بلکہ دنیا کے کئی ایسے ممالک ہیں، جن میں اس اسپرے کو لازمی قرار دیا گیا ہے ۔ ان میں بھارت سمیت دیگر ایشیائی ممالک بھی شامل ہیں۔

آسٹریلیا کے ذرائع نقل و حمل کے کارکنوں کی ایک تنظیم نے کہا کہ اگر اس اسپرے کے صحت پر مضر اثرات ثابت ہوتے ہیں تو وہ بھی کوئی اقدام اٹھانے کا سوچ سکتے ہیں۔ ان کے بقول اگر کوئی شخص جہاز کے عملے میں شامل ہے تو وہ نہ چاہتے ہوئے بھی اس اسپرے کو سانس کے ذریعے اندر لینے پر مجبور ہے۔

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں