’رفح آپریشن لاکھوں فلسطینیوں کی زندگیوں کے لیے خطرہ ہو گا‘
3 مئی 2024اسرائیل متعدد بار غزہ کے جنوبی شہر رفح میں حماس کے خلاف حملہ کرنے کی دھمکی دے چکا ہے، جہاں سات اکتوبر کے بعد سے اسرائیلی حملوں سے فرار ہو کر تقریباً دس لاکھ فلسطینی جمع ہیں۔ جنیوا میں اقوام متحدہ کے دفتر برائے انسانی ہمدردی (او سی ایچ اے) کے ترجمان ژینس لئیرکے کا پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہنا تھا، ''یہ عام شہریوں کا قتل اور پوری غزہ پٹی میں انسانی بنیادوں پر جاری آپریشن کے لیے ایک ناقابل یقین دھچکا ہو سکتا ہے۔‘‘
دوسری جانب اسرائیل نے کہا ہے کہ وہ رفح سے شہریوں کے محفوظ انخلا کو یقینی بنانے کے لیے کام کرے گا۔
ژینس لئیرکے کا مزید کہنا تھا کہ اس وقت رفح میں متعدد طبی کلینک، انسانی ہمدردی کے سامان سے بھرے گودام، خوراک کی تقسیم کے مقامات اور شدید غذائی قلت کا شکار بچوں کے لیے 50 مراکز فعال ہیں۔
ایک بیان میں مزید کہا گیا کہ 'او سی ایچ اے‘ امدادی کارروائیوں کو جاری رکھنے کے لیے ہر ممکن کوشش کرے گا، '' یہاں تک کہ کسی حملے کی صورت میں بھی امدادی کارروائیاں جاری رکھنے کے لیے نئے امکانات کا جائزہ لیا جا رہا ہے۔‘‘
دریں اثنا عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) کے ایک اہلکار نے اسی بریفنگ میں بتایا کہ رفح کے لیے ایک ہنگامی منصوبہ تیار کر لیا گیا ہے، جس میں ایک نیا فیلڈ ہسپتال بھی شامل ہے لیکن ساتھ ہی یہ بھی کہا گیا ہے کہ یہ اموات کی تعداد میں خاطر خواہ اضافے کو روکنے کے لیے کافی نہیں ہو گا۔
گزشتہ روز اسرائیل نے اعلان کیا تھا کہ اگر کوئی جنگ بندی معاہدہ اور یرغمالیوں کی رہائی کا معاہدہ نہ ہوئے تو وہ جلد ہی رفح میں متنازعہ زمینی فوجی آپریشن شروع کر دے گا۔
سات اکتوبر کو جنوبی اسرائیل میں فلسطینی عسکریت پسند تنظیم حماس کے ایک دہشت گردانہ حملے میں قریب بارہ سو اسرائیلی شہریوں کی ہلاکت کے بعد اسرائیل نے غزہ میں بڑی فضائی اور زمینی عسکری کارروائیوں کا آغاز کیا تھا۔
اسرائیلی فوج کی ان کارروائیوں کے نتیجے میں بڑی تعداد میں عام شہری ہلاکتوں اور وہاں سویلین شہری ڈھانچے کی بڑے پمانے پر تباہی کے پیش نظر اسرائیل کو عالمی سطح پر تنقید کا سامنا ہے۔
غزہ پٹی میں حماس کے زیر انتظام کام کرنے والی وزارت صحت کے مطابق جنگ شروع ہونے کے بعد سے غزہ میں اب تک کم از کم 34,622 افراد ہلاک اور 77,800 سے زیادہ زخمی ہو چکے ہیں۔ ہلاک اور زخمی ہونے والوں میں زیادہ تر تعداد خواتین اور بچوں کی ہے۔
کولمبیا کا اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات توڑنے کا اعلان
اسی دوران کولمبیا وہ تازہ ترین لاطینی امریکی ملک بن گیا ہے، جس نے غزہ میں فوجی کارروائیوں کے باعث اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات توڑنے کا اعلان کیا ہے۔ لیکن سلامتی کے معاملات پر دیرینہ دوطرفہ معاہدوں کی وجہ سے اس جنوبی امریکی ملک کے لیے اس فیصلے کے اثرات دوسرے ممالک کے مقابلے میں وسیع تر ہو سکتے ہیں۔
کولمبیا کے صدر گستاوو پیٹرو نے بدھ کے روز غزہ میں اسرائیل کے اقدامات کو ''نسل کُشی‘‘ قرار دیتے ہوئے اعلان کیا کہ ان کی حکومت جمعرات سے اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات ختم کر دے گی۔ تاہم انہوں نے یہ نہیں بتایا کہ ان کے فیصلے سے کولمبیا کی فوج پر کیا اثرات مرتب ہو سکتے ہیں، جس کا انحصار اسرائیلی ساختہ جنگی طیاروں اور مشین گنوں پر ہے۔
کولمبیا کے علاوہ اس خطے میں بولیویا اور بیلیز بھی غزہ کی جنگ کی وجہ سے اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات منقطع کر چکے ہیں۔
امریکہ، فرانس، جرمنی اور آسڑیلیا کی یونیورسٹیوں میں مظاہرے
دریں اثنا دنیا کے متعدد ممالک کی یونیورسٹیوں میں اسرائیل مخالف اور فلسطینیوں کے حق میں ہونے والے احتجاجی مظاہرے پھیلتے جا رہے ہیں۔ جمعے کے روز جرمن دارالحکومت برلن کی ہمبولٹ یونیورسٹی میں بھی فلسطینیوں کے حق میں ایک دھرنا دیا گیا ہے۔ ایسی ہی صورت حال فرانس، امریکہ، برطانیہ اور آسٹریلیا میں بھی ہے۔
گزشتہ ایک ماہ کے دوران کم از کم 30 امریکی یونیورسٹیوں میں فلسطینیوں کے حق میں اور اسرائیل کے خلاف مظاہرے ہو چکے ہیں۔ میڈیا رپورٹوں کے مطابق اس تناظر میں دو ہزار افراد کو حراست میں لیا جا چکا ہے۔ جمعے کے روز پیرس یونیورسٹی میں بھی پولیس نے کارروائی کرتے ہوئے ایک احتجاجی دھرنے کو ختم کرنے کی کوشش کی۔
طلبہ غزہ کی جنگ کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے برطانیہ کی متعدد یونیورسٹیوں کے کیمپس پر بھی قبضہ کیے ہوئے ہیں۔ یہ طلبہ یونیورسٹیوں اور اسرائیلی کمپنیوں کے ساتھ تعلقات منقطع کرنے جیسے مطالبات کر رہے ہیں۔
ا ا / ع ت، م م (اے ایف پی، روئٹرز، ڈی پی اے)