1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
سیاستاسرائیل

رفح سے فلسطینی شہریوں کا انخلا

10 مئی 2024

اقوام متحدہ کے ادارہ برائے فلسطینی مہاجرین UNRWA کا کہنا ہے کہ اسرائیلی فوجی پیش قدمی کے تناظر میں ایک لاکھ دس ہزار فلسطینی رفح شہر چھوڑ چکے ہیں۔

Nahostkonflikt | Rafah
تصویر: Ramez Habboub/AP Photo/picture alliance

اقوام متحدہ کے ادارہ برائے فلسطینی مہاجرین UNRWA  نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ایکس پر لکھا ہے، ''قریب ایک لاکھ دس ہزار افراد سلامتی کی تلاش میں رفح سے نکل چکے ہیں۔ مگر غزہ پٹی میں کوئی  جگہ محفوظ نہیں ہے اور یہاں معیار زندگی مخدوش ہے۔ فلسطینی سرحدی اتھارٹی کے مطابق رفح کی سرحدی کراسنگ انسانی بنیادوں پر امداد کی ترسیل کے لیے بدستور بند ہے۔

امریکہ غزہ میں فوری جنگ بندی کے لیے پرعزم ہے، انٹونی بلنکن

امریکی یونیورسٹیوں میں فلسطینیوں کے حق میں مظاہرے جاری

عالمی برادری کی جانب سے دباؤ کے باوجود اسرائیل نے غزہ پٹی کے جنوبی شہر رفح کے مشرقی حصے میں زمینی فوجی کارروائی شروع کی تھی جب کہ مصر کے ساتھ سرحدی کراسنگ پر بھی قبضہ کر لیا تھا۔

یہ بات نہایت اہم ہے کہ غزہ پٹی کی تقریباﹰ نصف آبادی اس وقت رفح شہر میں پناہ لیے ہوئے ہے، جب کہ دیگر شہروں کا بنیادی شہری انفراسٹرکچر تباہ ہو چکا ہے۔ حالیہ دنوں میں اسرائیلی فضائیہ نے بھی رفح شہر میں متعدد ایسے مقامات پر حملے کیے ہیں، جہاں سے اسرائیل پر مارٹر شیل یا راکٹ داغے گئے تھے۔ اسرائیلی فوجی بیان کے مطابق اس نے رفح شہر کے مرکز میں متعدد زیر زمین سرنگیں تباہ کی ہیں۔ اسرائیلی فوج کا دعویٰ ہے کہ اس نے ''دہشت گردوں کے کئی ٹھکانے ختم‘‘ کیے ہیں۔

رفح کی کریم شولوم سرحدی کراسنگ جو ناکہ بندی کے شکار اس علاقے میں ہیومینیٹیرین امداد کے حوالے سے انتہائی اہم سمجھی جاتی ہے، اسے بھی ہدف بنایا گیا ہے۔

رفح میں فلسطینیوں کی بہت بڑی تعداد پناہ لیے ہوئے ہےتصویر: Ali Jadallah/Anadolu/picture alliance

غزہ پٹی میں حملے جاری

اسرائیلی بیان میں کہا گیا ہے کہ السیتون سمیت غزہ پٹی میں چالیس مختلف مقامات کو گزشتہ چوبیس گھنٹوں میں فضائی حملوں کا نشانہ بنایا گیا ہے۔ جب کہ رفح میں موجود فلسطینیوں سے کہا گیا ہے کہ وہ علاقہ چھوڑ دیں۔

امریکہ سمیت اسرائیل کے تمام مغربی اتحادی ممالک نےاسرائیلی حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ رفح میں کسی بھی بڑے فوجی آپریشن سے اجتناب برتے کیوں کہ یہاں غیر متوقع ڈرامائی انسانی بحران پیدا ہو سکتا ہے۔

واضح رہے کہ گزشتہ برس سات اکتوبر کو فلسطینی عسکریت پسند تنظیم حماس کی جانب سے اسرائیل پر کیے گئے دہشت گردانہ حملے میں قریب 12سو اسرائیلی شہریوں کی ہلاکت کے بعد اسرائیل نے غزہ پٹی میں بڑی فضائی اور زمینی عسکری کارروائی کا آغاز کیا تھا۔

سیز فائر معاہدے کے لیے لچک دکھائی جائے

امریکہ اور مصر نے قاہرہ میں ایک اجلاس میں کسی معاہدے تک نہ پہنچنے کے بعد فلسطینی عسکری تنظیم حماس اور اسرائیل سے لچک کا مظاہرہ کرنے کی اپیل کی ہے۔

خدشات ہیں کہ رفح میں عسکری کارروائی کوئی انسانی المیہ جنم دے سکتی ہےتصویر: AFP

مصری وزیرخارجہ سامح شکری نے اپنے امریکی ہم منصب کے ساتھ جمعرات کی شب ٹیلی فون پر گفتگو کی۔ اس گفتگو میں دونوں رہنما نے فریقین کی جانب سے لچک دکھانے اور کسی معاہدے تک پہنچنے کے لیے فوری اقدامات کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔

واضح رہے کہ اسرائیل اور حماس براہ راست بات چیت نہیں کر رہے بلکہ  امریکہ، قطر اور مصرکی ثالثی میں یہ بات چیت جاری ہے۔

امریکی اور مصری وزرائے خارجہ کی اس بات چیت میں غزہ کی سلامتی کی تازہ صورت حال اور خصوصاﹰ رفح میں فلسطینی مہاجرین کی بڑی تعداد اور ان کے لیے ہیومینیٹیرین امداد کی ترسیل جیسے موضوعات پر بات چیت کی۔

غزہ پٹی میں امدادی سامان پہنچانا مشکل کیوں؟

01:48

This browser does not support the video element.

اقوام متحدہ میں زیادہ فلسطینی نمائندگی کے حقوق

اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس میں آج جمعے کے روز فلسطینیوں کو اس عالمی ادارے میں زیادہ نمائندگی کا  حق دینے سے متعلق ایک قرارداد پر ووٹنگ ہو گی۔ یہ بات اہم ہے کہ فلسطین کو اب تک ایک باقاعدہ رکن ریاست کی حیثیت تو حاصل نہیں ہے، تاہم وہ دو ہزار بارہ سے ایک مبصر ریاست کے طور پر اقوام متحدہ کا حصہ ہے۔ اس عالمی ادارے میں فلسطین کے علاوہ ویٹیکن ایک مبصر ریاست کے  طور  پر تسلیم کردہ ہے۔

یہ بات اہم ہے کہ اقوام متحدہ کی مکمل رکنیت کے لیے سلامتی کونسل کی منظوری لازم ہے، تاہم امریکی ویٹو کی وجہ سے اب تک ایسا ممکن نہیں ہو پایا ہے۔ خبر رساں ادارے ڈی پی اے کے مطابق جنرل اسمبلی میں اگر فلسطین کی بطور ریاست زیادہ نمائندگی کے حق کی قرارداد منظور ہو جاتی ہے، تو اس کی باقاعدہ رکنیت کے حوالے سے سلامتی کونسل پر دباؤ میں اضافہ ہو جائے گا۔

ع ت، ر ب، ک م (اے ایف پی، روئٹرز، ڈی پی اے)

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں