رقص اعضا کی شاعری ہے، جنسیت نہیں
12 مئی 2016مذہبی طور پر قدامت پسند پاکستان میں سُہائی ابڑو اور ان جیسی دوسری کلاسیکی رقص کی ماہر خواتین کے فن کو بہت سےافراد ملامت آمیز نظر سے دیکھتے ہیں ،جہاں اسے عموماً عصمت فروشی سے جوڑا جاتا ہے۔
سہائی ابڑو کہتی ہیں، ’’ہمیں اس بات کی مستقل وضاحت کرنا پڑتی ہے کہ رقص فنون لطیفہ کی ایک قسم ہے۔ اس کا تعلق مردوں کی تفریح طبع یا جنسیت سے نہیں ہوتا۔ نہ ہی بازار حسن میں بکھری کہانیوں میں اس کا کوئی کردار ہے۔‘‘
رنگوں سے بھری خوبصورت ساڑھی باندھے، باوقار انداز میں کتھک رقص کی ایک قسم ’اوڈیسی‘ کی مشق کرتے ہوئے سہائی کے چہرے اور ہاتھوں کی جنبش ایک دوسرے سے بالکل ہم آہنگ تھی۔
رقص پاکستانی ثقافت اور فلموں کا حصہ ہے مگر وہاں بھی رقص سکھانا ویسے ہی پیچیدہ ہے جیسا کہ بالی ووڈ میں دیکھنے میں آتا ہے۔
تاہم ایک مسلم اکثریتی ملک میں خواتین کا خاندانی محفلوں کے علاوہ رقص کی کسی محفل میں حصہ لینا معاشرے کے لیے نا پسندیدہ فعل ہے جبکہ رقص کو پیشے کے طور پر اختیار کرنے پر تو یہ مزاحمت اور بھی شدید ہو جاتی ہے۔
اسی موضوع پربات کرتے ہوئے ’نیشنل اکیڈمی آف پرفارمنگ آرٹس‘ کے عہدے دار راحت کاظمی کا کہنا تھا، ’’بد قسمتی سے رقص کو اب لاہور کی ڈانسر لڑکیوں سے منسوب کیا جاتا ہے۔‘‘
تاریخی اعتبار سے برصغیر میں کلاسیکی رقص مغلیہ سلطنت کی پروردہ طوائفوں کا میدان عمل رہا ہے۔ جاپانی طوائفوں کی طرح بر صغیر کی یہ طوائفیں بھی مغلیہ معاشرے میں رکھ رکھاؤ اور فنون لطیفہ کے ذوق کی علامت سمجھی جاتی تھیں۔
لیکن برطانوی تسلط کے دوران ان کے سماجی مرتبے پر زوال آیا اور ان کی شناخت صرف طوائف کی حیثیت سے ہونے لگی۔ آج کے دور میں عصمت فروشی کے غیر قانونی کام پر پردہ ڈالنے کے لیے رقص کا سہارا بھی لیا جاتا ہے۔
راحت کاظمی کہتے ہیں، ’’اسی لیے عصمت فروشی اور فنِ رقص کے مابین یہ کہتے ہوئے ایک لکیر کھینچنا ضروری ہے کہ نہیں ۔۔ یہ بھی فن لطیف ہے۔‘‘
بھارت سے تعلق رکھنے والی فریال اسلم جو اینتھروپولوجسٹ اور بھارت ناتیم رقص کی ماہر ہیں،کہتی ہیں، ’’میں با عمل مسلمان ہوں اورڈانسر بھی ہوں۔ مجھے تواس میں کوئی قباحت نظر نہیں آتی جبکہ میرا دل بھی مطمئن ہے۔‘‘
’اوڈیسی‘ اور ’بھارت ناتیم‘ تاریخی لحاظ سے ہندو مت سے جڑے ہیں۔ پاکستان میں اس کی تربیت کے لیے مناسب سہولیات نہ ہونے کے سبب شوقین افراد کلاسیکی رقص کی تربیت حاصل کرنے کے لیے بھارت کا رخ کرتے ہیں۔