رمادی و فلوجہ پر دوبارہ کنٹرول کے لیے حکومتی آپریشن کا آغاز
20 جنوری 2014اتوار کے روز رمادی شہر میں فوج اور اتحادی قبائلی لشکر کا مشترکہ فوجی آپریشن شروع کر دیا گیا ہے جبکہ جنگجووں کے حملے میں ڈیڑھ درجن سے زائد پولیس اہلکاروں کے شدید زخمی یا ہلاک ہونے کی اطلاعات سامنے آئی ہیں۔ گزشتہ برس دسمبر کے آخری ہفتے کے دوران القاعدہ سے وابستگی رکھنے والی انتہا پسند تنظیم اسلامی ریاست برائے عراق و شام (ISIL) کے جہادیوں نے فلوجہ شہر پر مکمل اور انبار صوبے کے دارالحکومت رمادی کے بعض مرکزی حصوں پر قبضہ کر کے حکومت کو ششدر کر دیا تھا۔
نیوز ایجنسی اے پی کو دو مقامی اہلکاروں اور ایک فوجی افسر نے اپنی شناخت مخفی رکھتے ہوئے بتایا کہ اتوار اور پیر کی رات کے درمیان رمادی کے مقبوضہ علاقوں میں شدید جھڑپوں کا سلسلہ جاری رہا لیکن جانی و مالی نقصان کی تفصیلات فراہم نہیں کی گئیں۔ انبار میں کیے جانے والے فوجی آپریشن کے سربراہ لیفٹیننٹ جنرل رشید فلیح نے بتایا ہے کہ حکومتی فوج نے رمادی اور فلوجہ کو ملانے والی بڑی شاہراہ پر واقع اسٹریٹیجیک نوعیت کے گاؤں البوبالی پر تین ہفتوں کے بعد دوبارہ قبضہ کر لیا ہے۔ فوجی جنرل کے مطابق اِس گاؤں سے پسپائی اختیار کرتے ہوئے مسلح جہادی کھلونا نما بم تقریباً ہر گھر اور اندرونی راستوں میں چھوڑ گئے ہیں۔ سرکاری ٹیلی وژن پر ایک ہفتہ قبل لیفٹیننٹ جنرل رشید فلیح کا کہنا تھا کہ فلوجہ اور رمادی سے انتہا پسند جنگجوؤں کو نکال باہر کرنے کے لیے وقت درکار ہے۔
رمادی اور فلوجہ میں قابض انتہا پسندوں کے خلاف فوجی آپریشن شروع کرنے کے اعلان کے بعد عراقی وزیر اعظم نوری المالکی کا کہنا تھا کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ جاری ضرور رکھی جائے گی لیکن اگر بات چیت سے معاملات حل ہوتے ہیں تو یہ عمل بھی ممکن ہے۔ مالکی کے مطابق اُن کی جنگ کا پہلا مقصد دہشت گردی کا صفایا ہے اور سیاسی رابطوں کے دروازے کو بند نہیں کیا جائے گا۔ گزشتہ ماہ المالکی حکومت کو سنی جنگجوؤں کی سرکوبی کے لیے امریکا کی جانب سے جدید ہتھیاروں کی فراہمی بھی کی گئی تھی۔
دوسری جانب عراق میں القاعدہ گروپ کے سربراہ ابو بکر البغدادی نے عراق کے سنی مسلمانوں سے اپیل کی ہے کہ وہ جُوق در جُوق مسلح جہادیوں کی صفوں میں شامل ہو کر بغداد حکومت کے فوجی آپریشن کو ناکام بنانے کے عمل کا حصہ بنیں۔ اپنے آڈیو پیغام میں ابوبکر البغدادی نے کہا کہ عراق کے سنی مسلمان ہتھیار اٹھا کر رمادی و فلوجہ پہنچ کر شیعوں کے خلاف جنگ میں عملی طور پر شریک ہوں کیونکہ یہ آخری موقع ہے اور اگر یہ ضائع ہو گیا تو سنی کرش کر دیے جائیں گے۔ البغدادی نے یہ بھی کہا کہ عسکریت پسندوں کی جنگ جاری رہے گی اور بغداد شہر پر مستقبل میں مزید حملے کیے جائیں گے۔
فلوجہ اور رمادی کے حصوں پر قبضہ کرنے والے جہادیوں کو بعض دوسرے مسلح گروپوں کی بھی حمایت حاصل ہے جو القاعدہ سے وابستگی نہیں رکھتے مگر نوری المالکی کی شیعہ اکثریت والی حکومت سے ناراض ہیں۔ یہ اہم تاریخی امر ہے کہ عراق کا صوبہ انبار اُس دور میں بھی انتہائی انتشار اور افراتفری سے عبارت تھا جب امریکی فوجیں عراق میں موجود تھیں۔