'رمضان ڈینش سماج پر منفی اثرات ڈالے گا، مسلمان چھٹی لے لیں‘
21 مئی 2018
مہاجرین مخالف اور سخت گیر نظریات کی حامل ایک ڈینش وزیر کا کہنا ہے کہ چونکہ مسلمانوں کے مقدس مہینے رمضان میں روزے رکھنا ڈینش سماج اور عوام پر منفی اثرات مرتب کر سکتا ہے، لہٰذا یہاں رہنے والے مسلمان دفاتر سے چھٹی لے لیں۔
اشتہار
ڈنمارک میں سینٹر رائٹ لبرل پارٹی کی رکن اور مہاجرت اور سماجی انضمام کی وزیر اِ نگر اسٹوژبرگ کا یہ بیان مسلمانوں کے نزدیک مقدس اور عبادت کے مہینے رمضان کی آمد کے بعد سامنے آیا ہے۔
اسٹوژبرگ نے ڈینش اخبار بی ٹی ٹیبلائڈ میں شائع ہوئے اپنے ایک کالم میں لکھا ہے کہ ڈنمارک میں رہنے والے مسلمان اس مہینے کے دوران اپنے دفاتر سے رخصت لے لیں کیونکہ روزہ رکھ کر کام پر آنے سے ڈینش معاشرے اور عوام پر اچھے اثرات مرتب نہیں ہوں گے۔
انگر اسٹوژبرگ اپنے اس کالم میں لکھتی ہیں،’’مجھے حیرت ہے کہ مذہب اسلام کا چودہ سو سال سے زیادہ پرانا یہ مذہبی حکم آج سن 2018 میں ڈینش لیبر مارکیٹ اور سوسائٹی کے ساتھ کیسےمطابقت رکھ سکتا ہے۔‘‘
ڈینش وزیر برائے مہاجرت و سماجی انضمام نے یہ بھی لکھا کہ انہیں روزہ رکھنے والے افراد کی سلامتی اور پیداواری صلاحیت پر تحفظات ہیں۔
مختلف ممالک میں ماہ رمضان کی رسوم
پیر کے روز یورپ اور دنیا کے مختلف ممالک میں پہلا ہے۔ دنیا کے مختلف ممالک میں بسنے والے مسلمان اس مہینے کا استقبال کیسے کرتے ہیں؟ دیکھیے اس پِکچر گیلری میں
تصویر: picture-alliance/Zuma Press
ساراجیوو – بوسنیا
سراجیوو میں مقامی روایات کے مطابق ہر روز افطار کے وقت توپ چلائی جاتی ہے۔
تصویر: picture-alliance/Zuma Press
چاند دیکھنے کی روایت
تصویر میں تیونسی شہری دوربین کی مدد سے رمضان کا چاند دیکھ رہے ہیں۔ دوربین کے علاوہ کئی ملکوں میں کھلی آنکھوں سے چاند دیکھنے کی روایت بھی ہے، اسی لیے مختلف ممالک میں رمضان کا آغاز بھی مختلف دنوں میں ہوتا ہے۔
مصر میں ماہ رمضان کے دوران روایتی لالٹین روشن کرنا جزو لازم سمجھی جاتی ہے۔ قاہرہ کی شاہراہ سیدہ زینب پر رمضان شروع ہوتے ہی یہ لالٹینیں فروخت کے لیے رکھ دی گئی ہیں۔
تصویر: DW/A. Al Badry
استنبول کی نیلی مسجد میں نماز تراویح پڑھتی خواتین
استنبول کی سلطان احمد مسجد کو نیلی مسجد بھی کہا جاتا ہے۔ پہلے روزے کے بعد ترک خواتین یہاں نماز تراویح پڑھ رہی ہیں۔
تصویر: picture-alliance/Anadolu Agency/E. Eladi
غزہ، فلسطین
مصر کی طرح غزہ کے بازاروں میں بھی رمضان کے آغاز کے ساتھ ہی رنگ برنگی لالٹینیں روشن ہو جاتی ہیں۔
تصویر: picture-alliance/Zuma Press
تہران کے بازار اور افطاری کا سامان
ایران میں بھی افطار کے لیے خصوصی پکوان تیار کیے جاتے ہیں۔ تہران کے بازاروں میں رمضان کے آغاز سے ہی خریداروں کا رش بڑھ جاتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/Anadolu Agency/F. Bahrami
پاکستان، کھجوریں اور پکوڑے
پاکستان بھر میں رمضان کی آمد کے ساتھ ہی بازاروں میں ہر طرف کھجوریں، پکوڑے اور سموسے دکھائی دیتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/Zuma Press
الجزائر، افطار اور مٹھائی
الجزائر میں رمضان کے مہینے میں شہد اور مٹھائی روزے رکھنے والوں میں مقبول ہیں۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/A. Belghoul
کابل کی بیکریاں
کابل میں بھی رمضان کے مہینے میں بیکریوں میں مٹھائی خریدنے والوں کی تعداد میں اضافہ ہو جاتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/R. Gul
9 تصاویر1 | 9
اس حوالے سے انہوں نے ایک بس ڈرائیور کی مثال بھی دی جس نے دس گھنٹوں سے کچھ کھایا پیا نہ ہو۔ انگر اسٹوژبرگ نے ایسے روزہ دار ڈرائیور کی مثال دیتے ہوئے لکھا، ’’یہ ہم سب کے لیے خطرناک ہو سکتا ہے۔‘‘
اسٹوژبرگ کی اس مہاجرین مخالف سوچ نے گزشتہ برس اس وقت ایک متنازعہ بحث کا آغاز کیا تھا، جب انہوں نے مہاجرت کے قوانین کو سخت بنانے کے پچاسویں اقدام کی خوشی مناتے ہوئے فیس بک پر کیک کے ساتھ اپنی مسکراتی تصویر پوسٹ کی تھی۔
گزشتہ پندرہ سالوں میں ڈنمارک کی حکومت نے تارکین وطن کے حوالے سے اپنی پالیسیوں کو سخت تر کیا ہے۔ حکومت کا موقف ہے کہ تارکین وطن کو ملکی لیبر مارکیٹ کا کارآمد حصہ بننے کے لیے ڈینش زبان اور رسم و رواج سیکھنا لازمی ہے۔
ص ح/ اے ایف پی
اسلام مخالف سیاسی پارٹی اے ایف ڈی کے بارے میں اہم حقائق
مہاجرت اور اسلام مخالف سیاسی پارٹی متبادل برائے جرمنی ملکی سیاست میں ایک نئی قوت قرار دی جا رہی ہے۔ اس پارٹی کے منشور پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/A. Weigel
مہاجرت مخالف
اے ایف ڈی کا کہنا ہے کہ یورپی یونین کی بیرونی سرحدوں کو بند کر دینا چاہیے تاکہ غیر قانونی مہاجرین اس بلاک میں داخل نہ ہو سکیں۔ اس کا یہ بھی کہنا ہے کہ ملکی سرحدوں کی نگرانی بھی سخت کر دی جائے۔ اس پارٹی کا اصرار ہے کہ ایسے سیاسی پناہ کے متلاشی افراد کو فوری طور پر ملک بدر کر دیا جائے، جن کی درخواستیں مسترد ہو چکی ہیں۔
تصویر: Reuters/T. Schmuelgen
یورپی یونین مخالف
متبادل برائے جرمنی کا قیام سن دو ہزار تیرہ میں عمل میں لایا گیا تھا۔ اس وقت اس پارٹی کا بنیادی نکتہ یہ تھا کہ یورپی یونین کے ایسے رکن ریاستوں کی مالیاتی مدد نہیں کی جانا چاہیے، جو قرضوں میں دھنسی ہوئی ہیں۔ تب اس پارٹی کے رہنما بیرنڈ لوکے نے اس پارٹی کو ایک نئی طاقت قرار دیا تھا لیکن سن دو ہزار تیرہ کے انتخابات میں یہ پارٹی جرمن پارلیمان تک رسائی حاصل کرنے میں ناکام ہو گئی تھی۔
تصویر: Getty Images/S. Gallup
دائیں بازو کی عوامیت پسندی
’جرمنی پہلے‘ کا نعرہ لگانے والی یہ پارٹی نہ صرف دائیں بازو کے انتہا پسندوں کی حمایت حاصل کرنے کی کوشش میں ہے بلکہ یہ ایسے افراد کو بھی اپنی طرف راغب کرنے کی خاطر کوشاں ہے، جو موجودہ سیاسی نظام سے مطمئن نہیں ہیں۔ کچھ ماہرین کے مطابق اے ایف ڈی بالخصوص سابق کمیونسٹ مشرقی جرمنی میں زیادہ مقبول ہے۔ تاہم کچھ جائزوں سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ پارٹی جرمنی بھر میں پھیل چکی ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/O. Berg
علاقائی سیاست میں کامیابیاں
اے ایف ڈی جرمنی کی سولہ وفاقی ریاستوں میں سے چودہ صوبوں کے پارلیمانی اداروں میں نمائندگی کی حامل ہے۔ مشرقی جرمنی کے تمام صوبوں میں یہ پارٹی ایوانوں میں موجود ہے۔ ناقدین کے خیال میں اب یہ پارٹی گراس روٹ سطح پر لوگوں میں سرایت کرتی جا رہی ہے اور مستقبل میں اس کی مقبولیت میں مزید اضافہ ممکن ہے۔
تصویر: Reuters
نیو نازیوں کے لیے نیا گھر؟
اے ایف ڈی جمہوریت کی حامی ہے لیکن کئی سیاسی ناقدین الزام عائد کرتے ہیں کہ اس پارٹی کے کچھ ممبران نیو نازی ایجنڈے کو فروغ دے رہے ہیں۔ یہ پارٹی ایک ایسے وقت میں عوامی سطح پر مقبول ہوئی ہے، جب انتہائی دائیں بازو کے نظریات کی حامل پارٹیاں تاریکی میں گم ہوتی جا رہی ہیں۔ ان میں این پی ڈی جیسی نازی خیالات کی حامل پارٹی بھی شامل ہے۔
تصویر: picture alliance/AA/M. Kaman
طاقت کی جنگ
تقریبا پانچ برس قبل وجود میں آنے والی اس پارٹی کے اندر طاقت کی جنگ جاری ہے۔ ابتدائی طور پر اس پارٹی کی قیادت قدرے اعتدال پسندی کی طرف مائل تھی لیکن اب ایسے ارکان کو پیچھے دھکیل دیا گیا ہے۔ ناقدین کے مطابق اب اس پارٹی کے اہم عہدوں پر کٹر نظریات کے حامل افراد فائز ہوتے جا رہے ہیں۔ ان میں اس پارٹی کی موجودہ رہنما ایلس وائڈل بھی شامل ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/M. Kappeler
پيگيڈا کے ساتھ ناخوشگوار تعلقات
اے ایف ڈی اور مہاجرت مخالف تحریک پیگیڈا کے باہمی تعلقات بہتر نہیں ہیں۔ پیگیڈا مشرقی جرمن شہر ڈریسڈن میں باقاعدہ بطور پر احتجاج کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہے۔ تاہم اے ایف ڈی نے پیگیڈا کے کئی حامیوں کی حمایت بھی حاصل کی ہے۔ تاہم یہ امر اہم ہے کہ پیگیڈا ایک سیاسی پارٹی نہیں بلکہ شہریوں کی ایک تحریک ہے۔
تصویر: picture alliance/dpa/S. Kahnert
میڈیا سے بے نیاز
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور بریگزٹ رہنما نائیجل فاراژ کی طرح جرمن سیاسی پارٹی اے ایف ڈی کے رہنما بھی مرکزی میڈیا سے متنفر ہیں۔ اے ایف ڈی مرکزی میڈیا پلیٹ فارمز کے ساتھ دوستانہ تعلقات بنانے کے لیے کوشش بھی نہیں کرتی بلکہ زیادہ تر میڈیا سے پوچھے گئے سوالات کے جوابات دینا بھی مناسب نہیں سمجھتی۔