1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

رنجیت سنگھ پھر بھی پنجاب کا ہیرو رہے گا

من میت کور
25 اگست 2021

لاہور میں رنجیت سنگھ کے مجسمے کو نقصان پہنچانے کے مناظر بطور سکھ میرے لیے انتہائی تکلیف دہ تھے۔ حملہ آور نے شاید یہ سوچا کہ وہ مجسمے کو نقصان پہنچا کر تاریخ کو مسخ کر دے گا یا پھر دلوں میں چھپا احترام تار تار کر دے گا۔

Pakistan | Bloggerin | Manmeet Kour
تصویر: privat

اس نوجوان کے اس فعل سے، جہاں پاکستان کی جگ ہنسائی ہوئی، وہیں ملک میں بھی اس عمل کے خلاف آوازیں اٹھنے لگیں۔ مجھے خوشی اس بات کی بھی ہے کہ حملہ آور لڑکے کے خلاف صرف سکھ کمیونٹی نے ہی احتجاج نہیں کیا بلکہ ہمارے مسلمانوں بھائیوں نے بھی ہمارا ساتھ دیا ہے۔ ملزم کسی مدرسے کا طالب علم تھا اور یقینی طور پر کسی کے نظریات سے متاثر ہو کر ہی اس حرکت پر آمادہ ہوا ہو گا۔ مجھے اس بات کا بھی افسوس ہے کہ آج کی نسل کے پاس رنجیت سنگھ جیسی شخصیت کے بارے میں آگاہی نہ ہونے کے برابر ہے اور پنجاب تک میں بچوں کو پنجاب کی اپنی ہی تاریخ نہیں پڑھائی جاتی۔

ہم سکھوں کے لیے اور پنجاب کی تاریخ میں رنجیت سنگھ ایک عہد کا نام ہے، جسے تاریخ کبھی بھی فراموش نہیں کر سکتی۔ ظاہر سی بات ہے حکومت پاکستان بھی جانتی ہے کہ رنجیت سنگھ کون تھے۔ تاریخ کی سمجھ رکھنے والی باشعور پاکستانی بھی جانتے ہیں کہ  پنجاب کی تاریخ میں رنجیت سنگھ کی کیا اہمیت ہے۔ صرف نہیں جانتا تو ایک خاص مائنڈ سیٹ ہے، جو نہ تو سیکھنا چاہتا ہے اور نہ ہی ماضی کے حقائق کو انصاف پسندی سے سمجھنا چاہتا ہے۔

رنجیت سنگھ کون تھے؟

پورے پنجاب میں سکھوں کی بارہ مثلیں (ایک لحاظ سے خود مختار ریاستیں) تھیں اور سب کی سب ایک دوسرے کے خلاف برسر پیکار تھیں۔ ان بارہ مثلوں میں سے ایک مثل گوجرانوالہ کے قریب آباد تھی۔ اس سکرچکیہ مثل کے سردار مہان سنگھ کے گھر 1780ء میں ایک بچہ پیدا ہوا۔ 1792ء میں سردار مہان سنگھ فوت ہوا جبکہ رنجیت سنگھ بارہ سال کی عمر میں سکرچکیہ مثل کا سردار بن گیا۔ سولہ سال کی عمر میں اس کی شادی کنہیا مثل میں ہوئی اور ان دو مثلوں کے اتحاد سے رنجیت سنگھ کی طاقت اور بھی مضبوط ہو گئی۔

رنجیت سنگھ  کے چرچے دور دور تک ہونے لگے۔ سکھوں میں وہ بہادر تھا اور بے مثال بھی، جو کہتا کر کے دکھاتا۔ ایک بڑی سلطنت کا خواب لیے رنجیت سنگھ نے طاقت دکھائی اور پھر وہ ہریانہ سے ملتان، پشاور اور کشمیر تک کے علاقے کا طاقتور ترین حکمران بن گیا۔ مہاراجہ رنجیت سنگھ برصغیر کی تاریخ میں پنجاب سکھ سلطنت کا بانی بنا۔  تقریباً چالیس سالہ دورِ حکومت میں اُس کی فتوحات کے سبب سکھ سلطنت کشمیر سے موجودہ خیبر پختونخوا اور جنوب میں سندھ کی حدود سے مل چکی تھی۔

پنجاب کب جاگے گا؟

انہوں نے سکھوں کی ایک منظم فوج تیار کی، جسے خالصہ فوج کہا جاتا تھا اور اس کا ہیڈ کوارٹر لاہور سے چند کلومیٹر دور شالا مار باغ کے قریب تھا، جسے ''بدھو کا آوا‘‘ کہتے تھے۔ سن  1811ء میں جب یہ فوج ترتیب دی گئی تو اس کی تعداد صرف چار ہزار تھی جبکہ 1839ء تک یہ چالیس ہزار تک جا پہنچی۔ انگریز پنجاب پر حملہ کرنا چاہتےتھے۔ رنجیت سنگھ کو علم تھا اور ان کی فوج ہر طرح کی قربانی کے لیے تیار تھی۔ وہ ایک وقت میں لاہور کے محافظ تھے اور عوام ان سے والہانہ محبت کرتی تھی۔

اس کے بعد اندرونی خلفشار اور سازشوں کی وجہ سے خالصہ فوج کمزور ہوئی، بدھو کے آوے میں بیٹھے جرنیلوں نے بھی بغاوت کی اور یوں انگریز فوج سے شکست برداشت کرنا پڑی۔ سکھ حکمرانی کا دور تو ختم ہو گیا مگر راج کرے گا خالصہ کا نعرہ خوب مشہور ہوا۔ پنجاب کی تاریخ کے اوراق میں رنجیت سنگھ کو اہم مقام حاصل ہے اور سکھوں کی ان سے محبت فطری ہے۔

پاکستان کا آئین اقلیتوں کے حقوق، ان کے املاک کے تحفظ کی بات کرتا ہے۔ رنجیت سنگھ کا مجسمہ تو دوبارہ بن چکا ہے لیکن اس طرح کی حرکات سے دل دکھتا ہے، افسوس ہوتا ہے کہ ایسا کیوں کیا کسی نے؟ ایک طرف حکومت اقلیتوں کو تحفظ فراہم کرنے میں سنجیدہ ہے اور دوسری طرف ہجوم اٹھتے ہیں اور دوسروں کی عبادت گاہوں تک کو بھی مسمار کرنے سے نہیں ہچکچاتے۔ مجھے امید ہے حکومت اس طرح کی حرکات میں ملوث قانون شکنوں کے خلاف سخت کارروائی کرے گی۔ نجی سطح پر ہی سہی، جب تک ایسی حرکات ہوتی رہیں گی، اقلیتیوں کو اس ملک میں بیگانگی کا پیغام پہنچتا رہے گا۔

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں