1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
مہاجرتیورپ

برطانوی پارلیمان میں تارکین وطن کی ملک بدری کا بل منظور

23 اپریل 2024

برطانوی وزیر اعظم رشی سونک کا کہنا ہے کہ حکومت نے ملک بدری کے لیے طیاروں کو چارٹر کیا ہے، جو جلد ہی پرواز کے لیے تیار ہوں گے۔ اس سے قبل پناہ گزینوں کو روانڈا بھیجنے سے متعلق منصوبے کو قانونی رکاوٹوں کا سامنا تھا۔

برطانوی پارلیمان
اس بل پر ووٹنگ سے چند گھنٹے قبل ہی برطانوی وزیر اعظم رشی سونک نے اعلان کیا کہ پناہ گزینوں کی ملک بدری سے متعلق پروازیں آنے والے مہینوں میں شروع ہونے کی توقع ہےتصویر: House of Commons/UK Parliament/PA Wire/empics/picture alliance

برطانوی پارلیمنٹ نے پیر کی رات کو تارکین وطن کو روانڈا بدر کرنے سے متعلق اس متنازعہ بل کو منظور کر لیا، جس کے تحت کچھ پناہ گزینوں کو مشرقی افریقی ملک بھیج دیا جائے گا۔ ایوان بالا اور ایوان زیریں کے درمیان طویل تلخ بحث کے بعد اسے منظور کر لیا گیا ہے۔

بحیرہ روم میں کشتی خراب، بھوک و پیاس سے ساٹھ افراد ہلاک

ہاؤس آف لارڈز نے اس بل میں تبدیلی کے لیے کئی بار اسے واپس بھیجا تھا، تاہم بالآخر وہ اس میں مزید کوئی تبدیلی نہ کرنے پر رضامند ہوا اور اس طرح آخری رکاوٹ بھی ختم ہو گئی۔

تارکین وطن کے لیے سن 2023 سب سے خطرناک سال رہا، اقوام متحدہ

گزشتہ ہفتے دارالعوام کے قانون سازوں نے ہاؤس آف لارڈز میں کی گئی بعض ترامیم کو مسترد کر دیا تھا۔

کیا نوجوان جرمن ووٹر دائیں بازو کی سیاست میں پھنس سکتے ہیں؟

اس بل پر ووٹنگ سے چند گھنٹے قبل ہی برطانوی وزیر اعظم رشی سونک نے اعلان کیا کہ پناہ گزینوں کی ملک بدری سے متعلق پروازیں آنے والے مہینوں میں شروع ہونے کی توقع ہے۔

برطانیہ: تارکین وطن کی تعداد میں تشویشناک اضافہ، قوانین میں سختی کا فیصلہ

انہوں نے ایک پریس کانفرنس کے دوران کہا، ''ہم پوری طرح سے تیار ہیں، منصوبے اپنی جگہ پر مکمل ہو چکے ہیں اور کسی بھی صورت میں یہ پروازیں جائیں گی۔''

نیا قانون کیا ہے؟

یہ قانون رشی سونک کی حکومت کی جانب سے برطانوی سپریم کورٹ کے اس اہم فیصلے کا جواب ہے، جس میں کہا گیا تھا کہ پناہ کے متلاشیوں کو مشرقی افریقی ملک بدر کرنا بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی ہے۔

تارکین وطن کے سبب جرمن آبادی میں تین لاکھ کا اضافہ

تاہم اب یہ قانون عدالتوں کو اس بات کا پابند کر دے گا کہ وہ روانڈا کو ایک محفوظ تیسرا ملک سمجھیں اور برطانیہ کے قانون سازوں کو بین الاقوامی قانون کے ساتھ ہی انسانی حقوق سے متعلق قانون کے بعض حصوں کو نظر انداز کرنے کے اختیارات بھی دیں۔

حکمران کنزرویٹیو پارٹی بارہا تارکین وطن کی تعداد میں کمی کا وعدہ کر چکی ہے اور یہ بہت تیزی سے اس کی اہم پالیسیوں کا ایک حصہ بن چکا ہےتصویر: Jessica Taylor/UK Parliament/AFP

واضح رہے کہ مہاجرین کو روانڈا بھیجنے کا خیال سب سے پہلے سن 2022 میں سابق وزیر اعظم بورس جانسن نے پیش کیا تھا۔ تاہم قانونی اعتراضات کے سبب بات آگے نہ بڑھ سکی اور اب اس کے لیے ایک نیا قانون تیار ہے۔

یورپ سےغیرقانونی تارکین وطن کی برطانیہ آمد میں کمی

حکمران کنزرویٹیو پارٹی بارہا تارکین وطن کی تعداد میں کمی کا وعدہ کر چکی ہے اور یہ بہت تیزی سے اس کی اہم پالیسیوں کا ایک حصہ بن چکا ہے۔ لیکن سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ توقع اس بات کی ہے کہ اس جماعت کو اگلے عام انتخابات میں زبردست شکست کا سامنا کرنا پڑے گا، جو 14 برسوں سے اقتدار میں ہے۔ یہ انتخابات اسی سال ہو سکتے ہیں۔

مہنگی چال

بیشتر تارکین وطن تنازعات، غربت اور بڑھتے ہوئے شدید موسم سے فرار ہو کر ایسے ملک میں پناہ کے خواہش مند ہوتے ہیں، جن کو ملک بدر کرنے کا یہ منصوبہ کافی مہنگا ہے اور توقع ہے کہ صرف پہلے ایسے 300 افراد کو روانڈا بھیجنے کے لیے ملک کو 665 ملین امریکی ڈالر خرچ کرنے پڑیں گے۔

ملک کے ایک معروف خیراتی ادارے کیئر فار کلیئز نے حکومت کے اس منصوبے کو ایک ''ظالمانہ چال'' قرار دیا ہے۔

حکومت کا کہنا ہے کہ وہ پناہ کے متلاشیوں کو برطانیہ آنے سے روک دے گی، حالانکہ ابھی یہ واضح نہیں ہے کہ یہ اسکیم کتنی کارگر ہو گی۔ سن 2018 سے اب تک تقریباً 120,000 افراد انگلش چینل عبور کر کے غیر قانونی طور برطانیہ پہنچے اور اس کوشش میں درجنوں افراد ہلاک بھی ہو چکے ہیں۔

بہر حال برطانوی وزیر اعظم سونک نے پیر کے روز کہا کہ ان کی حکومت نے تجارتی جیٹ طیاروں کو چارٹر کیا ہے اور تارکین وطن کی ملک بدری کے حوالے سے پہلی پروازوں کے لیے ایک ہوائی اڈے کو بھی اسٹینڈ بائی پر رکھا گیا ہے، جو 10 سے 12 ہفتوں کے دوران ہو سکتی

 ہے۔

ادھر اقوام متحدہ میں انسانی حقوق کے ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ جو ایئرلائن کمپنیاں اس منصوبے میں شامل ہوں گی، ان پر بھی بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی میں ملوث ہونے کا الزام عائد کیا جا سکتا ہے۔

ص ز/ ج ا (روئٹرز، اے ایف پی، اے پی)

ہنر مند تارکین وطن کے لیے اپنے والدین کو جرمنی بلانا آسان

00:55

This browser does not support the video element.

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں