رواں برس اسپین پہنچنے والے مہاجرین کی تعداد میں ریکارڈ اضافہ
23 اکتوبر 2018
عالمی ادارہ برائے مہاجرت نے کہا ہے کہ رواں برس اب تک بحیرہ روم سے اسپین پہنچنے والے مہاجرین کی تعداد پینتالیس ہزار تک پہنچ گئی ہے۔ یہ تعداد گزشتہ تین برسوں میں اسپین پہنچنے والے تارکین وطن کی کُل تعداد سے زیادہ ہے۔
اشتہار
جنیوا میں قائم مہاجرین کے عالمی ادارے آئی او ایم نے منگل کے روز رپورٹ کیا ہے کہ اکیس اکتوبر تک پینتالیس ہزار ایک سو پینتالیس مہاجرین بحیرہ روم کے راستے اسپین پہنچے۔ ان میں خواتین اور بچے بھی شامل تھے۔
یہ تعداد ان چورانوے ہزار مہاجرین کا تقریباﹰ نصف ہے جو اس سال یورپی ممالک کی جانب سے مہاجرت کے عمل کو روکنے کی کاوشیں کے باوجود بحیرہ روم سے یورپ پہنچے ہیں۔
اقوام متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرت کے مطابق مجموعی طور پر حالیہ سالوں میں یورپ پہنچنے والے تارکین وطن کی تعداد میں نمایاں کمی واقع ہوئی ہے۔ گزشتہ برس اسی مدت کے دوران یہ تعداد ایک لاکھ سینتالیس ہزار تھی جبکہ سن 2016 میں تین لاکھ چوبیس ہزار ریکارڈ کی گئی تھی۔
تاہم رواں برس بھی بحیرہ روم یورپ آنے کا قصد کرنے والے مہاجرین کے لیے موت کی گزرگاہ بنا رہا۔ غیر قانونی طور پر سمندر پار کرنے والے پناہ گزینوں کی امسال اب تک ایک ہزار آٹھ سو ستاون اموات رپورٹ ہوئی ہیں۔
یورپی سرحدی ایجنسی فرنٹیکس نے ستمبر میں کہا تھا کہ سن 2017 میں اسپین کے ساحلوں تک پہنچنے والے چالیس فیصد تارکین وطن کا تعلق مراکش اور الجزائر سے تھا۔ اسپین کی وزارت داخلہ کی جاری کردہ ایک رپورٹ جو ملکی اخبار’ایل پائیس‘ نے شائع کی، میں بتایا گیا ہے کہ سن 2018 میں اس رحجان میں اضافہ دیکھا جا رہا ہے۔
رپورٹ کے مطابق رواں برس ستمبر کے وسط تک غیر قانونی طور پر اسپین پہنچنے والے 33،315 تارکین وطن میں سے 6،433 مراکش کے شہری تھے۔
واضح رہے کہ سن 2015ء سے اب تک یورپی یونین میں داخل ہونے والوں کی تعداد ایک ملین سے زائد ہے، جن میں سے اکثریت شامی اور عراقی مہاجرین کی ہے، تاہم دیگر ممالک سے تعلق رکھنے والے افراد کی ایک بڑی تعداد نے بھی یورپ کا رخ کیا ہے۔
ترکی کے ساتھ یورپی یونین کے سن 2016ء میں طے پانے والے معاہدے کے بعد بحیرہء ایجیئن کے ذریعے یونان پہنچنے اور پھر دیگر یورپی ممالک کا رخ کرنے والے تارکین وطن کی تعداد میں تو نمایاں کمی ہوئی ہے، تاہم شمالی افریقی ممالک خصوصاﹰ لیبیا سے مہاجرین کی ایک بڑی تعداد یورپی یونین کا رخ کر رہی ہے۔
ص ح / ع ا / نیوز ایجنسی
دریائے ایورو، مہاجرین کے لیے موت کی گزرگاہ
ترکی اور یونان کے درمیان دریائے ایورو پار کر کے یورپ پہنچنے کی کوشش کرنے والے ہزاروں مہاجرین اس دریا میں ڈوب کر ہلاک ہوئے ہیں۔ ڈی ڈبلیو کی ماریانہ کراکولاکی نے الیگزندرو پولی میں مہاجرین کے ایک مردہ خانے کا دورہ کیا۔
تصویر: DW/M.Karakoulaki
خطرناک گزرگاہ
دریائے ایورو ترکی اور یونان کے درمیان وہ خطرناک گزرگاہ ہے جسے برسوں سے ہزارہا تارکین وطن نے یورپ پہنچنے کی خواہش میں عبور کرتے ہوئے اپنی جانیں گنوا دیں۔ اس حوالے سے یہ بدنام ترین گزرگاہ بھی ہے۔
تصویر: DW/M.Karakoulaki
مردہ خانہ
رواں برس اب تک ترک یونان سرحد پر اس دریا سے انتیس افراد کی لاشیں ملی ہیں۔ مرنے والے مہاجرین کی بڑھتی تعداد کے باعث فلاحی تنظیم ریڈ کراس نے ایک سرد خانہ عطیے میں دیا ہے۔ اس مردہ خانے میں فی الحال پندرہ لاشیں موجود ہیں۔ دریا سے ملنے والی آخری لاش ایک پندرہ سالہ لڑکے کی تھی۔
تصویر: DW/M.Karakoulaki
مرنے والوں کی تلاش
دریائے ایورو کے علاقے میں گشت کرنے والی انتظامیہ کی ٹیمیں یا پھر شکاری اور مچھیرے ان لاشوں کو دریافت کرتے ہیں۔ جب بھی کوئی لاش ملتی ہے، سب سے پہلے پولیس آ کر تفتیش کرتی ہے اور تصاویر بناتی ہے۔ پھر اس لاش کو مردہ خانے لے جایا جاتا ہے جہاں طبی افسر پاؤلوس پاؤلیدیس اس سے ملنے والی باقیات اور ڈی این اے کی جانچ کرتے ہیں۔
تصویر: DW/M.Karakoulaki
موت کا سبب
پاؤلوس پاؤلیدیس کا کہنا ہے کہ مہاجرین بنیادی طور پر ڈوب کر ہلاک ہوتے ہیں۔ پاؤلیدیس نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ ستر فیصد ہلاکتوں کا سبب پانی میں رہنے کے سبب جسمانی درجہ حرارت کا معمول سے نیچے ہو جانا تھا۔ پاؤلیدیس کے مطابق حال ہی میں ٹرینوں اور بسوں کے نیچے کچلے جانے سے بھی اموات واقع ہوئی ہیں۔
تصویر: DW/M.Karakoulaki
ذاتی اشیا
پاؤلوس پاؤلیدیس مہاجرین کی لاشوں سے ملنے والی ذاتی نوعیت کی اشیا کو پلاسٹک کی تھیلیوں میں سنبھال کر رکھتے ہیں تاکہ لاش کی شناخت میں مدد مل سکے۔
تصویر: DW/M.Karakoulaki
مشکل مگر لازمی فرض منصبی
مردہ مہاجرین سے ملنے والی نجی استعمال کی چیزوں کو پیک کرنا ایک بہت تکلیف دہ کام ہے۔ پاؤلوس کہتے ہیں کہ دریا سے ملنے والی ذاتی اشیا زیادہ تر ایسی ہوتی ہیں جنہیں پانی خراب نہیں کر سکتا۔
تصویر: DW/M.Karakoulaki
گمشدہ انگوٹھیاں
مہاجرین کی لاشوں سے ملنے والی زیادہ تر اشیاء دھات کی ہوتی ہیں جیسے انگوٹھیاں۔ گلے کے ہار اور بریسلٹ وغیرہ۔ کپڑے اور دستاویزات مثلاﹰ پاسپورٹ وغیرہ پانی میں تلف ہو جاتے ہیں۔
تصویر: DW/M.Karakoulaki
موت اور مذہب
پاؤلوس کے بقول ایسی اشیا بھی دریائے ایورو سے ملتی ہیں جو مرنے والے کے مذہب کے حوالے سے آگاہی دیتی ہیں۔ ایسی چیزوں کو حفاظت سے رکھ لیا جاتا ہے اور رجوع کرنے کی صورت میں اُس کے خاندان کو لوٹا دیا جاتا ہے۔
تصویر: DW/M.Karakoulaki
ابدی جائے آرام
اگر کسی مرنے والے مہاجر کی شناخت ہو جائے تو اس کی لاش اس کے لواحقین کو لوٹا دی جاتی ہے۔ اگر ایسا ممکن نہ ہو تو یونانی حکام ان لاشوں کی آخری رسوم اُن کے مذہب کے مطابق ادا کرانے کا انتظام کرتے ہیں۔