رواں برس افغانستان سے تمام فرانسیسی فوجی نکالنے کے وعدے پر قائم ہوں، اولانڈ
19 مئی 2012اولانڈ نے یہ بات واشنگٹن میں امریکی صدر باراک اوباما سے ملاقات میں کہی ہے۔ بعد میں صحافیوں سے باتیں کرتے ہوئے فرانس کے صدر نے کہا: ’میں نے صدر اوباما کو یاد دہانی کرائی ہے کہ میں نے فرانسیسی عوام سے وعدہ کیا تھا کہ ہم 2012 ء کے اختتام تک افغانستان سے اپنے تمام جنگی فوجی نکال لیں گے۔ مگر اس کے ساتھ ہی ہم دیگر طریقوں سے اُس جنگ زدہ ملک کی مدد جاری رکھیں گے۔‘
اولانڈ نے کہا کہ رواں برس کے بعد بھی فرانس کے کچھ فوجی افغانستان میں رہیں گے جہاں وہ افغان اہلکاروں کو تربیت فراہم کریں گے اور کچھ جنگی سامان کو واپس لانے میں مدد دیں گے۔
امریکا اور اس کے اتحادی 2014 ء کے اختتام تک افغانستان سے اپنا جنگی مشن ختم کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ امریکا کے اس وقت نوے ہزار کے قریب فوجی افغانستان میں موجود ہیں اور وہ رواں برس ستمبر تک ان کی تعداد کم کر کے 68 ہزار تک لانے کا ارادہ رکھتا ہے۔
اوباما اور اولانڈ کے درمیان گفتگو میں یورپ کے قرض بحران پر بھی تبادلہ خیال کیا گیا۔ دونوں رہنماؤں نے اس بات پر زور دیا کہ یورپ کو اس بحران سے نکلنے کے لیے ایک نئی حکمت عملی کی ضرورت ہے جس میں نمو پر زور دیا جائے اور بچتی اقدامات میں کمی کی جائے۔
چھ مئی کو منتخب ہونے والے اولانڈ کا اصرار ہے کہ یورپی بچتی اقدامات سے متعلق معاہدے پر نظر ثانی کی ضرورت ہے۔ فرانس کے صدر نے اس موقع پر مشکلات کے شکار ملک یونان کو بھی پیغام بھیجا کہ اس کا ساتھ نہیں چھوڑا جائے گا۔ اولانڈ نے اوباما کے ہمراہ کہا: ’ہمارے خیالات ایک جیسے ہیں۔ یونان کو یورو زون کا حصہ رہنا ہو گا۔‘
فرانسیسی صدر کیمپ ڈیوڈ میں جی ایٹ اور شکاگو میں نیٹو کے سربراہی اجلاسوں میں بھی شرکت کریں گے۔ رواں برس جی ایٹ اجلاس کے ایجنڈے میں یورپ کی اقتصادی مشکلات کے علاوہ افغانستان، ایران اور شام کے مسائل حاوی رہنے کی امید ہے۔
آٹھ ترقی یافتہ اقوام کے اس اجلاس میں امریکی مندوبین شام کے مسئلے کو حل کرنے میں روس کی حمایت حاصل کرنے کی کوششیں بھی کریں گے۔ روس شام میں کسی بھی قسم کی بیرونی مداخلت کے خلاف ہے اور ماضی میں چین کے ساتھ مل کر اس حوالے سے اقوام متحدہ کی قراردادوں کو بھی ویٹو کر چکا ہے۔ جی ایٹ میں ایران کے بارے میں بھی ایک متفقہ بیان متوقع ہے۔
(hk/sks (AP/Reuters